عام طور پر ٹینگو ڈانس کرنے کے لیے دو لوگ درکار ہوتے ہیں لیکن ہم دنیا کے جس حصے میں رہتے ہیں وہاں تین ممالک ٹینگو کرتے ہیں۔ پاک-امریکا اور پاک-سعودی کی جوڑیاں اس خطے میں ٹینگو کررہی ہیں اور ان کے ٹینگو رقص کو کوریوگراف امریکا نے کیا ہے۔
1950ء میں اس وقت کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے امریکی صدر ہینری ٹرومین سے واشنگٹن میں ملاقات کی۔ تین سال بعد سعودی عرب کے بادشاہ ابنِ سعود کی دعوت پر پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد سعودی عرب گئے۔ تب سے پاکستان اور ان دو ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات استوار ہوئے، اتارچڑھاؤ آنے کے باوجود تینوں ممالک کے درمیان تعلقات برقرار ہیں۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے جس کی مدد کے لیے دو امیر ممالک سامنے آتے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ امریکا کے رویے کا انحصار عمومی طور پر ان کے صدور اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی پالیسیز پر ہوتا ہے جوکہ شاذوناذر ہی ایک دوسرے سے متفق ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے سب سے قابلِ ذکر 1970ء کی دہائی میں صدر رچرڈ نکسن بمقابلہ اسٹیٹ سیکریٹری ولیم راجرز تھا جو چین کے ساتھ رابطوں کے دوران پوری دنیا نے دیکھا تھا۔
مجموعی طور پر سعودی سلطنت کا پاکستان کی جانب جھکاؤ رہا ہے۔ ان میں سے سب سے نمایاں شاہ فیصل بن عبدالعزیز کا نام ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 1974ء میں پاکستان میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کی مکمل فنڈنگ کی۔ انہوں نے اس اہم کام کانفرنس کی ذمہ داری ذوالفقار علی بھٹو کو سونپی جنہوں نے چیئرنگ کراس کا نام فیصل اسکوائر میں تبدیل کرکے ان کی اس فیاضی کو تسلیم کیا۔
’پاکستان اور سعودی عرب ٹینگو کررہے ہیں جس کا کوریوگرافر امریکا ہے‘
بہت کم لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ 1974ء میں شاہ فیصل نے ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی مرضی کے منصوبوں میں خرچ کرنے کے لیے 10 کروڑ ڈالرز کی خطیر رقم دی تھی۔ یہ رقم کسی درمیانی قوت کی کٹوتی کے بغیر براہِ راست منصوبوں پر لگائی گئی۔ نصف رقم یعنی 5 کروڑ کو ضلع گھوٹکی میں میرپور ماتھیلو میں کھاد کا بڑا کارخانہ بنانے کے پروجیکٹ پر لگایا گیا۔ حلانکہ یہ ایک مشترکہ منصوبہ نہیں تھا اس کے باوجود اس کا نام پاک-سعودی فرٹیلائزرز لمیٹڈ رکھ دیا گیا۔
جنوری 1975ء میں ایک بار پھر شاہ فیصل نے قراقرم میں زلزلہ متاثرین کے لیے ایک کروڑ ڈالرز کی امدادی رقم دی (امریکا نے صرف 25 ہزار ڈالرز دینے کا وعدہ کیا تھا)۔ انہیں پاکستان کے ساتھ اتنی سخاوت کی سزا بھی دی گئی۔ 4 ماہ بعد شاہ فیصل کو ان کے امریکی تعلیم یافتہ بھتیجے فیصل بن مساعد السعود نے گولی مار کر قتل کردیا۔
حال ہی میں سعودی بن عبدالعزیز خاندان اور شریف خاندان نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ان دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ ولی عہد محمد بن سلمان کا پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہنا بہت مشہور ہے۔ شریف خاندان کے لیے سعودی عرب ان کا پہلا ٹھکانہ ہے۔
2019ء میں ولی عہد محمد بن سلمان نے وزیراعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں پاکستان کا دورہ کیا۔ دونوں کی باہمی دوستی سے 20 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے امکانات پیدا ہوئے۔ معاہدوں پر دستخط ہوئے، مہر لگائی گئی لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ جیسا کہ ایک بار نپولین نے مشورہ دیا تھا، ’وعدہ ہر چیز کا کرو، عمل درآمد کسی پر نہ کرو‘۔
وزیراعظم شہباز شریف کو بھی اسی ولی عہد کی جانب سے اس بار 5 ارب ڈالرز کی مالی امداد کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ حالیہ ملاقات میں سعودی شہزادے نے اس عزم ظاہر کیا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ہمیشہ کھڑ ا رہے گا اور ساتھ ہی پاکستانی قوم کے لیے اپنی حکومت کی بے پناہ محبت کا اظہار کیا۔
سعودی ولی عہد نے اسی عزم کے تحت وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان بن عبداللہ کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان بھیجا۔ وفد کی تشکیل میں جس طرح اعلیٰ اراکین کو شامل کیا گیا ہے، اس نے سعودی عرب کی سنجیدہ سوچ کو ظاہر کیا۔ اس وفد میں سعودی وزرا برائے پانی و زراعت، صنعت و معادنیاتی وسائل، نائب وزیر برائے سرمایہ کاری اور سعودی فنڈ فار جنرل انویسٹمنٹ اور وزارت توانائی کے اعلیٰ حکام شامل ہیں۔ اس وفد نے رواں ہفتے پاکستان کا دورہ کیا، وہ بھی اس وقت جب ہمارے وزیرِ خزانہ غیرملکی دورے پر تھے۔
سعودی وفد کی آمد اس وقت ہوئی کہ جب پاکستان 24 ویں بار آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہے۔
2023ء میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے شہباز حکومت کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے 3 ارب ڈالرز کے اسٹینڈ بائی اریجمنٹ پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ سعودی عرب نے پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے 2 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ آئی ایم ایف پروگرام کی آخری قسط پاکستان کو باآسانی مل سکے۔
رواں سال 13 مارچ کو آئی ایم ایف کا مشن 14 سے 18 مارچ تک پاکستان کے دورے پر پہنچا۔ وزیرخزانہ نے پُرمسرت انداز میں اعلان کیا کہ انہوں نے ’پروگرام کی کامیاب تکمیل کے لیے درکار تمام اہداف حاصل کرلیے ہیں‘۔
دو روز بعد 15 مارچ کو آئی ایم ایف کی ٹیم نے وزیرِ خزانہ کے اعلان پر ناگواری کا اظہار کیا، ’کہ اس نے آئی ایم ایف کے عملے کی جانب سے جائزے کو مکمل کرنے سے پہلے ہی تمام ساختی معیارات، اعدادوشمار کے اہداف کو مادی شکل دے دی تھی‘۔
ایک نیوز رپورٹ کے مطابق جائزہ لینے والے آئی ایم ایف کے وفد نے ’مذاکرات کے پہلے اجلاس میں وزارت خزانہ کی ٹیم کی سرزش کی جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا‘۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے آئی ایم ایف کو یقین دلایا کہ ’مستقبل میں ایسا کبھی نہیں ہوگا‘۔
شیکسپیئر نے آئی ایم ایف کی پاکستان کے ساتھ معاہدے کی پیشگوئی پہلے ہی کردی تھی، ’یہ کمزوروں کی مدد کے لیے کافی نہیں بلکہ اس سے بعد میں انہی کی مدد ہوگی‘۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارے مذاکرات کا کیا انجام ہوتا ہے، یہ تو 20 اپریل کے بعد ہی ہمیں پتا چلے گا۔ رواں سال نومبر میں امریکا اپنے نئے صدر کا چناؤ کرے گا۔ دوسری جانب امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کا تین فریقی ٹینگو رقص جاری ہے۔ پاکستان کے حالات پر امریکی گلوکارہ میلوڈی گارڈوٹ کے لیرکس شاید کچھ یوں ہوسکتے ہیں، ’سنبھل کر چلنا نہیں آتا (لیکن) اسے ٹینگو ڈانس کرنا آتا ہے‘۔