جو سیکشن لگائے گئے، سزا سنائی گئی اس سے شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی نہیں، عدالت

اسلام آباد ہائی کورٹ میں بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان اور سابق وزیر شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔ تشکر نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مقدمے کی سماعت کی، بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر، تیمور ملک و دیگر جبکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) پراسیکیوشن ٹیم سے حامد علی شاہ، ذوالفقار نقوی و دیگر عدالت میں پیش ہوئے۔

کمرہ عدالت میں ملزمان کے خاندانی افراد سمیت پارٹی قیادت بھی موجود تھی۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے سائفر کیس میں دسویں دن اپنے دلائل کا آغاز کیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے گزشتہ روز چارجز سے متعلق آپ سے کچھ چیزوں پر معاونت طلب کی تھی، وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ میری بحیثیت وکیل ذمہ داری ہوگی کہ ہر پہلو آپ کے سامنے رکھ سکوں، جب آپ رمضان میں کام کررہے ہوتے ہیں تو بندہ تھوڑا تھک جاتا، میری گزارش ہوگی کہ کسی ایک پارٹی کو عید سے پہلے عیدی ملنا چاہیے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، ہم نے تمام پروسیجر کے ساتھ چل کر دیکھنا ہے۔ بعد ازاں بیرسٹر سلمان صفدر نے سائفر کیس میں سزا معطلی کی استدعا کردی جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ ابھی سزا معطل کرکے کیا کرنا ہے، ابھی مرکزی اپیلوں پر فیصلہ کریں گے۔

وکیل سلمان صفدر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ آج میں اپنے تمام دلائل قسط وار تقریبا پندرہ منٹ میں مکمل کروں گا، ایک دستاویز کے حوالے بات ہورہی ہے مگر وہ دستاویز فائل میں ہی موجود نہیں، ایک میرے پاس الزام آیا کہ سائفر کو تور مروڑ کر پیش کیا اور واپس بھی نہیں کیا، ایک اور الزام ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کو پبلک کیا، الزام یہ بھی ہے کہ سائفر پبلک کرنے سے سیکیورٹی سسٹم کو نقصان پہنچایا گیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ سیکشن 5 ون اے یا بی میں سے کسی ایک میں سزا ہونی تھی؟ وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ سوال یہ ہے کہ کونسے شواہد کا سہارا لے کر سزا سنائی گئی؟ عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ سائفر ڈی کوڈ ہوا، کاپیاں 8 لوگوں کو گئی، مگر مقدمہ 2 افراد کے خلاف بنایا گیا؟ کہا گیا کہ اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے سائفر کاپی گھما دی؟ وکیل نے جواب دیا کہ اعظم خان کے بیان میں واضح ہے کہ عمران خان نے سائفر کاپی ڈھونڈنے کی ہدایت کی تھی۔

پھر عدالت نے دریافت کیا کہ ٹرائل کورٹ نے ون سی اور ون ڈی کے مطابق سزا دی ؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ ون سی پر سزا غفلت کی تو بنتی ہی نہیں، جسٹس عامر فاروق نے استفسار کہ جب سیکریٹری کے پاس کوئی چیز آجاتی ہے تو آگے جانے کی موومنٹ آفیشل ہوتی ہے یا نہیں؟ چلیں مفروضوں پر جاتے ہیں تو دو سال بھی ان سیکشنز پر زیادتی ہے۔

وکیل سلمان صفدر نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ پہلے تو انہوں نے 10 سال سزا دی پھر ساتھ چھوٹی چھوٹی سزائیں دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو سیکشن لگائے گئے اور سزا سنائی گئی اس سے تو شاہ محمود قریشی کا تعلق ہی کوئی نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!