حالیہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) سندھ میں قومی و صوبائی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہ حاصل کر سکی حالانکہ (ن) لیگ نے کراچی کے بعض حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے بھی کیے تھے اور میاں شہباز شریف نے اس بار بھی ضلع غربی سے قومی اسمبلی کی اسی نشست پر اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے جہاں سے انھیں 2018 میں پی ٹی آئی کے فیصل واؤڈا کے ہاتھوں ہروایا گیا تھا اور بعد میں فیصل واؤڈا کی خالی کی گئی اسی نشست پر جو ضمنی انتخابات ہوا تھا اس میں مسلم لیگ (ن) نے مفتاح اسمٰعیل کو کھڑا کیا تھا جو پیپلز پارٹی کے امیدوار سے ہار گئے تھے مگر انھیں معقول ووٹ ملے تھے۔
میاں شہباز شریف اس بار بھی اسی حلقے سے امیدوار تھے مگر ان کے مقابلے میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال امیدوار تھے اور ایم کیو ایم نے انھیں شہباز شریف کے مقابلے میں دستبردار کرانے سے انکار کر دیا تھا جس پر شہباز شریف کے کاغذات واپس لے لیے گئے تھے اور مصطفیٰ کمال کامیاب قرار دیے گئے۔
شہباز شریف 16 ماہ اتحادی وزیر اعظم رہے۔ اس بار ان کے لیے حالات بھی سازگار تھے اور اگر وہ اس بار کراچی سے جیت بھی جاتے تو انھوں نے اپنی لاہور کی نشست ہی برقرار رکھنی تھی اور قصور کی طرح کراچی کی نشست بھی چھوڑ دینی تھی جو پھر پیپلز پارٹی ضمنی الیکشن میں اپنی حکومت کے باعث جیت جاتی۔
کراچی کے کسی ایک صوبائی حلقے سے بھی مسلم لیگ (ن) کا ایک امیدوار بھی نہ جیت سکا کیونکہ اس الیکشن میں بھی 2018 کی طرح مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے کراچی کو نظرانداز کیا اور ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک جلسہ کرنے کے لیے بھی ان کی قیادت نہیں آئی اور پنجاب میں بھی نواز شریف نے محدود جلسے کیے اور صرف اپنے لیے ووٹ مانگنے ایبٹ آباد گئے تھے جو کبھی (ن) لیگ کا گڑھ تھا مگر وہاں بھی نواز شریف کو شکست ہوئی اور پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن کی قیادت نے کھل کر اپنی پارٹی کے لیے انتخابی مہم نہیں چلائی اور لاہور کے اپنے ہی علاقوں میں انتخابی ریلیاں نکالتے رہے اور (ن) لیگ لاہور میں کوئی بڑا انتخابی جلسہ نہ کر سکی جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے لاہور کے اپنے انتخابی حلقے میں بھرپور انتخابی مہم چلائی مگر ناکام رہے اور انھوں نے کراچی شہر میں ایک دن کے لیے مختلف علاقوں میں انتخابی ریلی ضرور نکالی تھی جس کے نتیجے میں ان حلقوں سے پیپلز پارٹی کو پہلے سے زیادہ ووٹ ملے مگر پی پی اپنے دعوؤں کے برعکس کامیابی حاصل نہ کر سکی اور اپنے محدود علاقوں میں ہی کامیاب رہی۔
سندھ کو 2013 کے بعد مسلم لیگ (ن) نے اپنی وفاقی حکومت میں ہی نظرانداز کر دیا تھا اور وزیر اعظم نواز شریف نے عملی طور پر سندھ سے پسپائی اختیار کر لی تھی اور سندھ پیپلز پارٹی کے حوالے کر دیا تھا جس کی وجہ سے سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے صدر اسمٰعیل راہو تک مایوس تھے اور انھوں نے مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ وفاقی حکومت کے سندھ کو نظرانداز کرنے پر ٹھٹھہ کا بااثر سیاسی خاندان شیرازی بھی مایوس تھا جو اپنے حلقوں سے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو شکست دے کر الیکشن جیتا کرتا تھا وہ بھی مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگیا تھا اور شیرازی خاندان نے اس بار پیپلز پارٹی کی طرف سے الیکشن لڑا اور حسب سابق کامیاب رہا اور ٹھٹھہ ضلع سے مسلم لیگ (ن) کو کامیابی نہیںملی اور یہی کچھ کراچی میں ہوا۔
اندرون سندھ مسلم لیگ (ن) کا وجود برائے نام تھا اس کے مقابلے میں جے یو آئی نے سندھ میں اپنا ووٹ بڑھایا اور سندھ میں مسلم لیگ (ن) تقریباً ختم ہو چکی ہے جب کہ سندھ کے بعض علاقوں میں مسلم لیگ فنکشنل نے پھر بھی کچھ کامیابی حاصل کی مگر شکارپور ضلع کا مہر خاندان بھی فنکشنل لیگ کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہو گیا جب کہ غوث بخش مہر پہلے مسلم لیگ (ن) میں شامل رہے۔ اپنے اقتدار میں وزیر اعظم نواز شریف سندھ میں پیپلز پارٹی کو خوش کرنے میں لگے رہے اور پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کا خاتمہ کرتی رہی اور (ن) لیگی رہنما پی پی میں شامل ہوتے رہے۔
اس بار مسلم لیگ (ن) نے اچھی شہرت کے حامل سابق پولیس افسر بشیر احمد میمن کو سندھ کا صدر بنایا تھا جنھوں نے اچھی کارکردگی دکھائی جنھوں نے قومی اسمبلی الیکشن پہلی بار لڑا اور معقول ووٹ لیے ۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کے جنرل سیکریٹری مفتاح اسمٰعیل کو دو بار (ن) لیگ نے وزیر خزانہ بنایا تھا وہ اتحادی حکومت کے 16 ماہ میں ہی (ن) لیگ چھوڑ گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ملک کے دوسرے بڑے صوبے سندھ کو خود بے حال کر دیا ہے کوئی بڑا سیاسی رہنما یا الیکٹ ایبل مسلم لیگ (ن) میں نہیں سب پیپلز پارٹی میں جا چکے ہیں جس سے (ن) لیگ کے حامی مایوس ہیں اور (ن) لیگ سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔