اقوام متحدہ کے عالمی ماحولیاتی ادارے (یو این ای پی) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں ایک طرف 78 کروڑ 30 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں، جبکہ دوسری جانب عالمی سطح پر 20 فیصد خوراک ضائع ہو گئی۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ’یو این ای پی‘ کے تازہ ترین اشاریے کے مطابق 2022 میں 1.05 ارب ٹن (تقریباً 19 فیصد) خوراک ریٹیلرز، گھروں سے باہر کھانے پینے کی جگہوں پر اور گھروں میں ضائع ہوئی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت نے بتایا کہ مزید 13 فیصد خوراک اجناس کی کٹائی سے فروخت تک ترسیلی مراحل میں ضائع ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ خوراک گھروں میں ضائع ہوتی ہے، جس کا سالانہ حجم 63 کروڑ 10 لاکھ ٹن ہے، یہ ضائع ہونے والی مجموعی خوراک کا تقریباً 60 فیصد بنتا ہے، باہر کھانے پینے کی جگہوں اور خرید و فروخت کے دوران بالترتیب 18 کروڑ اور 13 کروڑ 10 لاکھ ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ ہر فرد سالانہ اوسطاً 79 کلو خوراک ضائع کرتا ہے، جس سے بھوک سے متاثر ہر فرد کو روزانہ 1.3 کھانے فراہم کیے جاسکتے ہیں۔
’یو این ای پی‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے بتایا کہ یہ ایک عالمگیر المیہ ہے، خوراک ضائع ہونے کی سبب لاکھوں افراد بھوکے ہیں، مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے سے ناصرف عالمی معیشت پر منفی اثر پڑتا ہے بلکہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور آلودگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ یو این ای پی 2021 سے خوراک کے ضیاع کا جائزہ لے رہا ہے، رپورٹ کے مطابق یہ مسئلہ صرف دولت مند ممالک تک ہی محدود نہیں، امیر، وسط آمدنی اور نچلے درجے کی آمدنی والے ممالک میں خوراک ضائع ہونے کی فی کس سالانہ شرح میں صرف سات کلو کا فرق ہے۔
رپورٹ کے مطابق شہری و دیہی آبادیوں میں خوراک کے ضیاع کی شرح میں نمایاں فرق ہے، متوسط آمدنی والے ممالک میں دیہی آبادی نسبتاً کم مقدار میں خوراک ضائع کرتی ہے، ممکنہ طور پر اس کی وجہ یہ ہے کہ دیہاتوں میں بچنے والی خوراک جانوروں کو کھلا دی جاتی ہے جبکہ مضافاتی علاقوں میں اس کا استعمال بطور کھاد کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’یو این ای پی‘ کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ 10 فیصد گرین ہاؤس گیسز خوراک کے نقصان اور ضیاع کے نتیجے میں خارج ہوتی ہیں، جو ہوابازی کے شعبے سے خارج ہونے والی گیسوں کے مقابلے میں پانچ گنا بڑی مقدار ہے، اسی لیے خوراک کے ضیاع سے گرین ہاؤس گیسز کے اخراج پر قابو پانا ضروری ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہر سطح پر بڑی تعداد میں حکومتیں خوراک کے ضائع ہونے کو روکنے اور کو محدود رکھنے کے لیے نجی و سرکاری شعبے کی شراکتوں کو ترقی دے رہی ہیں۔
مزید بتایا گیا کہ جاپان اور برطانیہ اس کی نمایاں مثال ہیں، جہاں اس طریقے سے خوراک کے ضیاع میں بالترتیب 18 اور 31 فیصد تک کمی لائی گئی ہے۔