دینی مدارس کے طلبہ کے ساتھ جنسی استحصال اور انہیں سخت جسمانی سزائیں دینے کی ویڈیوز کا سامنے آنا پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں۔ عالمی سطح پر مطلق العنان اداروں جیسے مدارس، ویٹی کن حتیٰ کہ بورڈنگ اسکول، فوجی بیرک، یتیم خانے اور پناہ گاہیں جہاں بہت سے بچے ایک چھت تلے رہتے ہیں، ایسے مقامات پر بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے لاتعداد واقعات ریکارڈ ہوتے رہتے ہیں۔ اس میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن پاکستان میں مذہبی افراد کی طاقتور لابی کی وجہ سے اکثر دینی اداروں میں ان بدسلوکی کے واقعات کا احتساب نہیں ہوتا۔ صرف خبر دینے والے، نڈر کارکنان یا متاثرین کی جانب سے آواز اٹھائے جانے کے بعد ہی انصاف کا حصول کسی حد تک ممکن ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے گزشتہ 20 سال کے دوران پاکستان میں سماجی ترقی کے عارضی نقطہ نظر کی جگہ ایک ایسی نسل کے نقطہ نظر نے لے لی ہے جو اس بات پر قائل ہیں کہ مسلمانوں کی حساسیت کے لیے ترقی کو مذہبی اعتبار سے مقدس بنانا درست ہے۔ اور اس نے پاکستان کی نوآبادیاتی اور اسلامی ہائبرڈ قانونی حکومت کو درپیش متعدد چیلنجز کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ صنف اور اس سے جڑے شرم اور بدنامی سے متعلق تصورات زیادہ گمبھیر ہوگئے ہیں اور انسانی حقوق کے معاملات پر با اثر علما کے اختیارات مزید بڑھ گئے ہیں۔
پیشہ ورانہ جنسی استحصال
بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے کام کرنے والی سماجی تنظیم ’ساحل‘ کی جانب سے اکٹھا کیے گئے ڈیٹا کے مطابق ایسے معاملات میں ملزمان کی اکثریت کو بچے پہچانتے ہیں کیوں کہ وہ برادری، ہمسایہ یا ان کے خاندان کے ہی افراد ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ایک اور ڈیٹا سے پتا چلا ہے کہ پولیس، اسکول اساتذہ یا قریبی خاندانی لوگوں سے زیادہ جنسی استحصال کی شکایات مولویوں کے خلاف سامنے آئیں۔
پاکستان بچوں کو محفوظ بچپن فراہم کرنے میں ناکام کیوں ہے؟
2020ء میں خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے مدارس میں جنسی استحصال کے متعدد واقعات کو رپورٹ کیا، جن میں سے ایک کیس مانسہرہ میں 8 سالہ یونس کا تھا جس میں قاری سمیع الدین کی گرفتاری کے باوجود ان کے ساتھیوں نے متعلقہ شخص پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی۔ انہوں نے شمس الدین کو بےگناہ بتایا اور اسے ’ملک میں اسلام دشمن عناصر کا شکار‘ قرار دیا۔ بعدازاں قاری کو ساڑھے 16 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
اس حوالے سے ابتدائی ڈیٹا تک رسائی محدود ہوتی ہے اس لیے سماجی تنظیمیں میڈیا رپورٹس اور پولیس کے پاس درج شکایات پر انحصار کرتی ہیں لیکن گزشتہ 20 سال کے ڈیٹا سے ظاہر ہوا کہ مدارس میں جنسی استحصال کا شکار ہونے والی لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے کچھ زیادہ ہے۔ شاہدرہ میں حال ہی میں قاری ابوبکر معاویہ نے مبینہ طور پر 12 سالہ لڑکے کا ریپ کیا۔ ابتدائی طور پر یہی لگ رہا تھا کہ اساتذہ کی جانب سے متاثرہ بچے کے خاندان پر الزامات واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالے جانے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی دب جائے گا۔
انسدادِ ریپ کے ترمیم شدہ قانون کے تحت اگر متاثرین کے لواحقین پیچھے ہٹ جائیں تب بھی پولیس اور استغاثہ پابند ہیں کہ وہ اپنی تحقیقات جاری رکھیں اور عدالت بھی اپنی سماعت جاری رکھے لیکن اس کے باوجود وہ دونوں فریقین کے درمیان سمجھوتے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ڈی این اے اور فرانزک رپورٹس حاصل کرنے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے بہت سے مقدمات میں دوسرا راستہ تلاش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ معاویہ کیس میں شاید یہ سوشل میڈیا کا دباؤ تھا جس کے نتیجے میں طاقتور مذہبی لابیز کے خلاف سیاسی اور قانونی ردعمل سامنے آیا۔
کچھ سالوں سے مدارس میں اجتماعی زیادتی کے متعدد واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ بہت کم واقعات میں ہی متاثرہ بچے اپنے مجرمان کے خلاف لڑتے ہیں یا متاثرین کے والدین انصاف کے حصول کے لیے مسلسل کوشاں رہتے ہیں۔
مدارس اصلاحات میں ناکامی
تاریخی طور پر پاکستان کے مدارس، تنظیم نو اور اصلاحات کا مرکز رہے ہیں لیکن یہ اصلاحات صرف نصاب یا فنڈنگ تک محدود رہیں اور ادارہ جاتی احتساب کبھی نہیں کیا گیا۔
2003ء میں جب دہشتگردی کے خلاف جنگ اپنے عروج پر تھی تب تحقیقی طریقوں کی ایک نئی شکل ابھری جس میں مقامی لوگوں کی مدد، مترجم، این جی اوز کی تحقیق اور فوجی حکام کی صوابدید پر دیے جانے والے نوآبجیکشن سرٹیفکیٹس پر انحصار کیا گیا۔ اس نئے طریقہ کار سے اسلام، دہشت گردی، جہاد، سلامتی اور تنازعات کے مطالعے اور اسلام اور ترقی کے بارے میں نام نہاد ’ماہرین‘ پیدا ہوئے۔ بعدازاں برطانوی اور امریکی حکومت کی فنڈنگ سے اسلام اور ترقی کے مطالعات کیے گئے۔ ان پروگرامز نے مسلم استثنیٰ کے نام پر فنڈز فراہم کیے جسے بالخصوص مسلم خواتین اور غربا کو دیکھتے ہوئے جائز قرار دیا گیا۔
2002ء میں امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) نے 10 کروڑ ڈالرز کے پانچ سالہ باہمی معاہدے پر عمل درآمد کیا۔ 2008ء میں کروڑوں پاؤنڈ کے ایک اور منصوبے کی سربراہی ڈیپارٹمنٹ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (ڈی ایف آئی ڈی) نے کی جس میں مذہب اور تحقیق پر توجہ دی گئی۔ یوں عقیدے پر مبنی نقطہ نظر سے سماجی تبدیلی کی راہ ہموار ہوئی۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی کنسلٹنٹس نے اس منصوبے میں مدد کی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ سماجی تحریکوں کے لیے تنظیمی وسائل فراہم کرنے کے معاملے میں مذہب قابل قدر کردار ادا کرسکتا ہے جبکہ مذہبی رہنما اور سماجی تنظیمیں ’شراکت دار‘ کے طور پر کام کرسکتی ہیں۔
اسی طرح کے منصوبوں کی پالیسی بریف میں مذہب کو ترقیاتی تحقیق اور پالیسی کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے پر زور دیا گیا جس میں مدارس اور خواتین کی مذہبی رہنمائی کی حوصلہ افزائی کرنا شامل ہے جسے مغربی فیمنزم کا متبادل بتایا گیا۔
اسی وقت جنرل پرویز مشرف کی حکومت، امریکا کی تابعداری میں مدارس کو دہشت گردوں کے مشتبہ اڈوں اور پناہ گاہوں کے طور پر رجسٹرڈ نہیں کررہی تھی جس پر اسے اندرونی مزاحمت کا سامنا تھا۔ ماہرین کی مشاورت سے طے پانے والی ادارہ جاتی پالیسی نے ایسی اصلاحات پر زور دیا جوکہ ’علما‘ (جس کی تعریف بیان نہیں کی گئی) کے لیے قابلِ قبول ہو اور اس معاملے پر سول سوسائٹی کے تجربات کو نظرانداز کردیا گیا اور فیمینسٹ کی جانب سے عقیدے پر مبنی تنقید کو ’مغربی اور لبرل-سیکولر‘ قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔
اس طرح کی تحقیق کرنے والے ماہرین نے جنرل پرویز مشرف کے روشن خیال اعتدال کے دوغلے منصوبے کو سراہتے ہوئے مدارس اور علما کو سماجی ترقی کے شعبے میں شامل کرنے کی سفارش کی۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو بنیاد پرست ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور جو تعلیم سے مذہب کو الگ کرنے کے مغربی سیکیولر نظریات پر تنقید کرتے تھے، انہوں نے بھی مدارس کے کردار کے حوالے سے امید کا اظہار کیا۔ انہیں لگا کہ غریب بچوں کی علم کی فراہمی میں مدد جاسکتی ہے اور مساجد و مدارس میں مذہب کے ذریعے خواتین کو بھی بااختیار بنایا جاسکتا ہے۔
ان محققین اور مطالعات کو مفروضہ سمجھ کر مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا اور گزشتہ ایک دہائی سے انسانی حقوق کے کارکنان مدارس و مساجد میں بچوں کے جنسی استحصال اور انہیں سخت جسمانی سزائیں دینے کے واقعات رپورٹ کررہے ہیں۔ یہ بہ ظاہر ایک اہم موقع تھا جسے ضائع کردیا گیا۔
اساتذہ اور ان کے معاون کاروں کی اس ’شراکت داری‘ نے مذہبی رہنماؤں کو کمیونٹی کے نگہبانوں کے طور پر با اختیار بنایا (بالخصوص تعلیم، ویکسینیشن، بچوں کے تحفظ کی کمیٹیوں اور مزدوروں کے حوالے سے پروجیکٹس) حالیہ واقعات نے ظاہر کیا کہ ان میں سے کچھ اساتذہ جو اب کافی بااثر ہوچکے ہیں، اپنی برادری اور مدارس میں ہونے والے جنسی استحصال کے واقعات میں قانونی کارروائیوں سے باز رہنے کے لیے متاثرین پر دباؤ ڈال سکتے ہیں اور وہ لوگ عدالت سے باہر ان معاملات میں سمجھوتہ کروانے کی کوشش بھی کرسکتے ہیں جن میں ان کے ساتھی اساتذہ ملوث ہوں۔
قانون تحفظ ہے، حقوق نہیں
تحقیقی مطالعات، علمی مقالے اور عطیہ دہندگان کی رپورٹس میں یہ بتدریج تجویز کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی حکومت کو یہ سمجھنے کی کوششیں کرنی چاہیے کہ مدارس کے نمائندگان اصلاحات اور جدیدیت کو کس انداز میں سمجھتے ہیں۔ یہ طبقہ جسمانی یا جنسی استحصال کے بڑے پیمانے پر الزامات کا احتساب کیے بغیر، سماجی ترقی کے منصوبوں میں شمولیت کو کس طرح لیتا ہے۔
آئینی اور اخلاقی ضرورت کے تحت اصلاحات کے ہر شعبے میں تبدیلی کی جاتی ہے (بالخصوص ’بدعنوان‘ بیوروکریسی اور عدلیہ) لیکن ایک شعبہ جہاں حکومت اور معاونین کی خوشنودی برقرار رہتی ہے وہ مذہب اور ادارہ جاتی طور پر اس کا اثرورسوخ ہے۔ اس سے مذہبی طبقے کو مزید اخلاقی اور قانونی استثنیٰ ملتا ہے۔
سب سے پہلے تو دیت اور قصاص کے نام پر، ریپ اور غیرت کے نام پر قتل کے مجرمان کو مذہبی چھوٹ نہ دے کر قانونی اصلاحات کسی حد تک کامیاب ہوئی ہیں۔ خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکنان کو یہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے 30 سال کا عرصہ لگا جوکہ انہوں نے کسی غیر نوآبادیاتی دلیل یا مذہبی تفسیر کی دوبارہ تشریح کے ذریعے نہیں کیا۔ امتیازی قوانین میں ترامیم کو آئین کے اندر لبرل اصولوں اور آفاقی اقدار کے ذریعے جائز قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ کچھ موقع پرست علما اور سیاست دانوں کو ان ترامیم کی مخالفت سے روکنے پر آمادہ کیا گیا ہوگا لیکن اسے مذہبی حکام کے ساتھ کامیاب ’شراکت‘ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
دوسری بات، بہت سے صنفی اور مذہبی تعصبات فیملی قوانین میں جنسی تعلقات کے حوالے سے شعور اور کم عمری کی شادی کے معاملات پر اتفاق رائے یا مستقل مزاجی قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ پاکستان میں 18 فیصد سے زائد لڑکیاں اور 4 فیصد لڑکوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کردی جاتی ہے۔ دوہرے قوانین والی ہماری حکومت اور سماجی رجحانات کی وجہ سے لڑکیوں کی جبری مذہب تبدیلی کی روک تھام کرنا انتہائی مشکل ہے۔ اگر خواتین کی شادی غیرمساوی بنیادوں پر ہوگی اور غریبوں کے لیے معاشی تحفظ اور امیروں کے لیے سماجی حیثیت برقرار رہتی ہے تو خواتین کی صرف ان کے گھریلو کاموں اور ان کی تولیدی صلاحیتوں کی وجہ سے قدر کی جائے گی، جبکہ ان کا کنوارا ہونا کسی ’پریمیئم پیکیج‘ کی طرح ہوگا۔
تیسری بات بچوں کے جنسی استحصال کے معاملات ہیں جو بہ دستور عدم توجہی کا شکار ہیں جبکہ متاثرین کے خاندان، اپنی برادری، پولیس یا مذہبی رہنماؤں کے مشورے اور سماجی دباؤ میں زندگی گزارتے ہیں۔ جیسا کہ انسانی حقوق کے وکلا نے نشان دہی کی ہے کہ جب تک عدالتی عمل شواہد کو بیانات پر فوقیت نہ دے اور عدالتیں لواحقین کی جانب سے پیچھے ہٹنے کے باوجود مقدمات نہیں چلاتیں تب تک جنسی جرائم میں انصاف کا حصول ممکن نہیں۔
گمراہ کُن عقائد
قانونی چارہ جوئی کے علاوہ گمراہ کُن عقائد اور اسے حل کرنے کے ناقص طریقہ کار کی وجہ سے پاکستانی بچوں کے لیے سماجی تحفظ غیریقینی ہے۔
پہلا غلط تصور یہ ہے کہ خاندان، شادی اور برادری محفوظ پناہ گاہیں ہیں جہاں جنسی استحصال نہیں ہوتا اور اسی تصور کی وجہ سے جنسی استحصال کے بیشتر واقعات کو اندرونی طور پر حل کیا جاتا ہے جس سے متاثرین عمر بھر کے ٹراما میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ دوسرا سب سے نقصان دہ تصور یہ ہے کہ بڑھتے ہوئے جنسی استحصال کی وجہ فطری عناصر ہیں بلکہ اس کی وجہ طاقت کی غیر مساوی تقسیم بالخصوص صنفی تقسیم ہے۔
البتہ خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکنان (فیمنسٹس) اس سے متفق نہیں۔ وہ اس بات سے انکاری ہیں کہ جنسی استحصال ذاتی معاملہ نہیں بلکہ اس کے بجائے یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جبکہ وہ خاندانوں اور شادی شدہ زندگیوں میں ہونے والے پُرتشدد واقعات پر بات کرکے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ عورت مارچ جیسی تحریکیں جن میں متاثرین نے اپنا ذاتی تجربہ شیئر کرکے اس کے ان جیسی تحریکوں کو وسعت دی اور اسی طرح کے ٹراما کا شکار ہونے والے افراد کو دوستانہ ماحول فراہم کیا۔ سیکس ایجوکیشن پر بات نہ کرکے یا جنسی استحصال کو ممنوع موضوع قرار دے کر عزت اور احترام کا غلط تصور پیش کیا جارہا ہے۔ اس طرح متاثرین کمزور ہوتے ہیں کیونکہ یہ انہیں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے سے روکتا ہے۔ خاموشی اور شرم وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے متاثرین انصاف کے لیے کھڑے نہیں ہوتے۔
ہمارے معاشرے میں تابعدار خواتین اور فرماں بردار بچوں کو قابلِ تعریف سمجھا جاتا ہے اور صنفی اعتبار سے فیصلہ سازی مرد کی وہ ذمہ داری ہے جو فطرت نے انہیں دی ہے۔ فیمینٹس یہ کہتی ہیں کہ یہ قدرتی نہیں بلکہ اس سے سماجی، سیاسی اور اقتصادی وسائل کی بنیاد پر طاقتور سزاؤں سے بچ جاتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان رویوں میں تبدیلی مشکل چیلنج ہے بالخصوص اساتذہ، عدلیہ اور سیاسی حلقوں میں کہ جن میں سے کچھ مردوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں، وہ جنسی جرائم کے الزامات کی تردید کرتے ہیں اور اس کے بجائے متاثرین کو ہی قصوروار ٹھہراتے ہیں۔ ایسی سوچ والے افراد معاشرے کے قابلِ اعتبار اور قائدانہ عہدوں پر فائز ہیں۔
حل کیا ہے؟
قانونی، سماجی اور صنفی عدم مساوات کے حوالے سے جو اقدامات کیے جاتے ہیں وہ مسلسل ناکام ہورہے ہیں۔ ہم قوانین کی تبدیلی اور مرد حضرات پر انحصار کرتے ہیں جبکہ ہمیں حل کے لیے اپنی سوچ پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ایسا کوئی اصول نہیں جو ووٹنگ میں حصہ لینے، شادی، جنسی جرائم، فیکٹری میں مزدوری، وراثت ملنے یا عدالتی مقدمات میں ٹرائل کی عمر کیا ہونی چاہیے، ی واضح تعریف پیش کرے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں صوبوں کے اعتبار سے یہ مختلف ہیں۔ جہاں تک جنسی جرائم سے نمٹنے کی بات ہے تو برادریوں اور خاندانوں پر اسے حل کرنے کا معاملہ چھوڑ کر شاید اسے روکا نہ جاسکے البتہ ٹیکنالوجی کے فراہم کردہ حل پر عمل درآمد کرکے ان جرائم سے نمٹا جاسکتا ہے۔
شکایات کے اندراج کے لیے سرکاری طور پر کم از کم 17 ہیلپ لائنز ہیں، اس کے باوجود ساحل کے اراکین کا کہنا ہے کہ شاذونادر ہی کوئی بچہ اپنی شکایت کے لیے ہیلپ لائنز پر رجوع کرتا ہے ( زیادہ تر والدین یا دیگر بالغ افراد رابطہ کرتے ہیں)۔ لاپتا بچوں کے لیے ہائی پروفائل زینب الرٹ ایپ یک طرفہ نتائج پیش کرتی ہے اور ہر صوبے میں لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کے اغوا کی اطلاعات زیادہ دیتی ہے جس حوالے سے کوئی تجزیہ پیش نہیں کیا جاتا۔
خواتین اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے زیادہ تر قوانین اور پالیسیوں میں ڈیٹا یا اس حوالے سے تجزیات کی کمی ہے، اس کے باوجود اسے درست انداز میں حل نہ کرنے کی وجہ سے ملک کی عالمی رینکنگ میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر تنظیمیں حالات کو بہتر بنانے کے لیے بچیوں پر زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ ان کاوشوں کا مقصد پاکستانی خواتین کی نسلوں کو پسماندہ، محرومی اور کمزور ہونے سے روکنا ہے جنہیں پہلے ہی نشوونما اور ناخواندگی کے مسائل کا سامنا ہے اور وہ ایک منحصر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
گزشتہ 20 سال سے فنڈنگ کے پروگراموں میں مذہب کو شامل کرنے کے لیے زور دیا گیا ہے جس کی وجہ سے مذہبی رہنما خواتین کے لیے کئی پروجیکٹس چلا رہے ہیں اور جن کی منظوری کے لیے انہیں ادائیگی کی جاتی ہے۔ لیکن اس نے ان رہنماؤں کو کمیونٹی پروگراموں میں مزید طاقتور بنا دیا ہے۔ حکام نے پولیو ویکسینیشن، فیملی پلاننگ اور صنفی امتیاز سے متعلق اہم پروگرامز میں علما کو خصوصی کردار ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
وہ لوگ جو مذہبی بنیاد پر سیاست کی حمایت کرتے ہیں اور ’مغربی‘ حقوق کا متبادل بھی تجویز کرتے ہیں، انہوں نے بنیاد پرست مخالفت کو عطیہ دہندگان اور ثقافتی پروگراموں کے ذریعے فنڈز فراہم کرنے والے منصوبوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس نے عورت مارچ تحریک کے لیے بھی مسائل پیدا کیے ہیں، کیونکہ مذہبی خواتین جنسی مساوات کے مطالبات کی سختی سے مخالفت کرتی ہیں۔
جنسی جرائم میں سزا بڑھانا اور ملوث افراد کو سزا دینا یا مرد حضرات میں مردانگی کے حوالے سے تصورات تبدیل کرکے جنسی استحصال کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقی تبدیلی اس وقت آئے گی جب متاثرہ بچے یا خواتین خاموشی توڑ دیں اور آواز اٹھانے کی ٹھان لیں۔ ہمیشہ پدرشاہی نظام کے آگے جھکنے یا اداروں کے نمائندگان سے اپیل کرنے کے بجائے وہ خود ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائیں اور اپنے تعلیمی، وراثتی، ازدواجی اور پیشہ ورانہ حقوق کا مطالبہ کریں۔
ایسے پروگرامز پر وسائل خرچ کرنے کے بجائے کہ جس کے ذریعے پوری کمیونٹی کا رویہ تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے، شاید ہمیں براہِ راست بچوں پر توجہ دینی چاہیے۔ اس کا مطلب بچوں کو بااختیار بنانا ہے اور انہیں قائدانہ مہارت سکھانی ہے تاکہ وہ برادری کے رہنماؤں، سرپرستوں اور درمیان میں آنے والے روایتی عناصر کے اثرورسوخ میں نہ آئیں۔ ایسے اقدامات کی مدد سے بچوں کے لیے حالات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ساتھ ہی ان کی خودمختاری میں بھی اضافہ ہوگا۔
جب تک مذہبی اداروں کو صاف دکھایا جاتا رہے گا اور کارکنان عقیدے پر مبنی قوانین اور حقوق کو غیر نوآبادیاتی اوزار کے طور پر فروغ دیں گے۔ جب تک اخبارات مذہب یا جنسی تعلقات جیسے ’حساس‘ معاملات پر بات کرنے سے کترائیں گے اور خواتین کے حقوق کی علم بردار خاموشی سے انتظار کریں گی کہ مردوں کو اپنے اختیارات کا اندازہ ہو اور وہ خود اس سے دستبردار ہوجائیں۔ جب تک حکومتیں مذہبی اساتذہ کے طبقے کو خوش کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی اور ڈونرز عقائد کی بنیاد پر سماجی ترقی کے منصوبوں کی فنڈنگ کرتے رہیں گے، یہ ملک بچوں کو ایک محفوظ بچپن فراہم کرنے میں یوں ہی ناکام رہے گا۔