سندھ ہائیکورٹ: امیدوار کی شکایات دور کیے بغیر انتخابی نتائج جاری نہ کرنے کا حکم

تشکُّر نیوز رپورٹنگ،

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے انتخابی نتائج چیلنج کرنے کی درخواستوں پر شکایت دور کیے بغیر کسی بھی حلقے کا نوٹی فکیشن جاری نہ کرنے کا حکم دے دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں الیکشن 2024 کے نتائج کو چیلنج کرنے کے حوالے سے 25 سے زائد درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ ایم کیو ایم کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے موقف دیا کہ ابھی تو یہ معاملہ عدالت میں چلنے لائق ہے یا نہیں اس پر بھی بات ہونی ہے۔ درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اختیار کیا کہ فارم 45 کے نتائج کے مطابق امیدوار جو کامیاب تھے وہ بعد میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر آگئے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہاں بہت ساری درخواستیں ہیں سب کے معاملات الگ الگ ہیں، قانون کے مطابق چلیں، الیکشن میں ری پولنگ بھی ممکن ہے، اگر فارم 47 کے حوالے سے شکایات ہیں تو پھر الیکشن کمیشن ان شکایات کو دیکھے گا، اللہ کا شکر ہے الیکشن پُرامن طریقے سے ہوچکے ہیں اور کوئی بڑا دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوا ابھی ہم الیکشن کے اس پروسیس کو ڈسٹرب نہیں کرسکتے قانون کے مطابق سب کو چلنے دیں۔

ایم کیو ایم کے وکیل نے موقف دیتے دیا کہ یہ درخواستیں عدالت میں چلانے کے لیے مینٹین ایبل نہیں۔ درخواست گزاروں کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے موقف اپنایا کہ نتائج سے قبل آر او تمام فارم 45 کو میچ کرلیں۔ چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 میں تمام شکایتوں کے ازالے کے لیے طریقہ کار موجود ہے جس پر عمل کیا جاسکتا ہے، پورا کا پورا الیکشن دوبارہ کروایا جاسکتا ہے جس میں کوئی رکاوٹ بھی نہیں ہے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ میری جانب سے تمام فارم 45 اس درخواست میں لگا دئیے گئے ہیں، فارم 45 میں تمام اسٹیک ہولڈرز کے دستخط بھی موجود ہیں جسے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے، فارم 45 کو نظر انداز کرتے ہوئے الیکشن کے نتائج کا اعلان کردیا گیا اور فارم 45 دیکھے بغیر ہی آر او کی جانب سے نتائج مرتب کیے گئے اور نتائج سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز کو نوٹس بھی نہیں کیا گیا جس کے حوالے سے شکایات درج کی جاچکی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ جلدی گھبرا گئے؟ الیکشن کمیشن کو تمام اختیارات حاصل ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے موقف دیا کہ ہمارا موقف بس یہ ہے کہ آر او نے الیکشن پروسیس پر عمل ہی نہیں کیا ہے جب نتائج کو ٹیلی ہی نہیں کیا گیا ہو تو پھر جلدی کس بات کی تھی نتائج دینے کی۔ چیف جسٹس عقیل احمد عباسی نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کو تمام لوگوں کے تحفظات دور کرنے کی ڈیوٹی ہے۔ انہوں نے نمائندہ الیکشن کمیشن سے کہا کہ جب الیکشن کمیشن لوگوں کو ڈنڈے مار کر بھگائے گا تو پھر لوگ عدالت ہی آئیں گے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے موقف دیا کہ ہماری گزارش ہے کہ الیکشن کمیشن کو نتائج کا اعلان کرنے سے فی الحال روکا جائے، فارم 45 میں جس امیدوار کے ووٹ زیادہ تھے فارم 47 میں اسی امیدوار کے ووٹ کم کیسے ہوگئے، بس ہم یہ چاہتے ہیں سرکاری فارم 45 کی ہمارے سامنے تصدیق کرلی جائے۔ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نمائندے سے کہا کہ الیکشن کمشنر سے ہدایات لے کر آجائیں کہ امیدواروں کی شکایتوں کے لیے کیا ہوسکتاہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن نوٹی فکیشن جاری کرنے میں جلد بازی نہ کرے، ہم فی الحال اسٹے نہیں دے رہے۔ درخواست گزار کے وکیل حیدر وحید ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ میرے پاس پچھلے الیکشن کے فارم 45 بھی موجود ہیں جس میں ایک ہزار ووٹ کو ایک لاکھ بنایا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم چاہتے ہیں کہ متعلقہ ادارے اپنا کام قانون کے مطابق کریں تاکہ ہمیں مداخلت کرنے کی ضرورت نا پڑے لیکن اگر کوئی قانون کے مطابق اپنا کام نہیں کرے گا تو پھر ہمیں ایکشن لینا ہوگا۔

 

 

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ تمام فریقین کو عدالت کی ہدایات کے حوالے سے معلومات فراہم کی جائیں۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر الیکشن کمیشن شکایتوں کے باوجود نتائج دیتا ہے تو بھی قانون کے خلاف ہوگا۔ عدالت نے الیکشن کے حوالے سے تمام شکایتوں کے ازالے تک نوٹی فکیشن جاری نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ بعدازاں عدالت نے درخواستوں کی مزید سماعت آج منگل کو 11 بجے تک ملتوی کردی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!