یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ چینی کے زیادہ استعمال سے انسان ذیابیطس قسم دوم یعنی شوگر کا شکار ہو جاتا ہے۔
اب امریکا کی ٹولین یونیورسٹی (Tulane University)کے ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جو مردوزن روزانہ زیادہ نمک کھاتے ہیں، وہ بھی نمک کم کھانے والوں کی نسبت بہت جلد ذیابیطس جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہو تے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ نمک زیادہ کھانے سے انسان ایک طبی خرابی ’’ہائی بلڈ گلوکوز‘‘ کا نشانہ بن جاتا ہے۔ یہ کیفیت اصطلاح میں ’’ہائپرگلائی سیمیا‘‘ (Hyperglycemia) کہلاتی ہے۔
ہائی بلڈ گلوکوز یعنی خون میں گلوکوز المعروف بہ شکر زیادہ ہونے کی کیفیت ہی ذیابیطس قسم دوم پیدا کرتی ہے۔ گویا جدید طب نے انسان کو خبردار کر دیا ہے کہ وہ روزمرہ کھانوں میں نمک وچینی، دونوں کا استعمال اعتدال سے کرے ورنہ خطرناک بیماریاں قبل ازوقت اسے دبوچ کر زندگی گذارنا مشکل بناسکتی ہیں۔
نمک کی اہمیت
نمک ایک معدن ہے۔ یہ چٹانوں یا سمندری پانی سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک چمچ نمک میں کلورائیڈ 60 فیصد اور سوڈیم 40 فیصد ملتا ہے۔ یہ قدرت الہی کا انسان کے لیے بیش بہا تحفہ ہے۔ ایک تو اس لیے کہ نمک ہمارے کھانوں کا ذائقہ دوبالا کر دیتا ہے۔ دوسرے نمک کو وجود میں لانے والے دونوں کیمیائی عناصر انسانی زندگی برقرار رکھنے کے لیے لازم ہیں۔ معنی یہ کہ انسانی جسم میں سوڈیم یا کلورائیڈ کی کمی ہو جائے تو انسان موت کے منہ میں پہنچ سکتا ہے۔ زمانہ قدیم میں نمک بطور کرنسی رائج تھا۔ اسی لیے انگریزی میں تنخواہ کا لفظ، سیلری، نمک کے لاطینی لفظ (سال) سے نکلا ہے۔
کلورائیڈ اور سوڈیم مل کر ہمارے جسم میں خون و پانی کی مقدار، دبائو اور تناسب (composition) درست رکھنے میں مددگار بنتے ہیں۔ نیز جسم میں تیزاب اور الکلی کا توازن بھی ٹھیک رکھتے ہیں۔ یہ کیمیائی عناصر ہمارے عصبی خلیوں (نیورونز)کے درمیان پیغام رسانی یقینی بناتے ہیں۔ ان کی مدد ہی سے ہمارے عضلات (مسلز) حرکت کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ دونوں خلویاتی سطح پر اور بھی ایسے کئی کام انجام دیتے ہیں جن کے ذریعے ہمارے جسم کی پوری مشینری اپنی ذمے داریاں ٹھیک طریقے سے نبھاتی رہتی ہے۔ ہمارے پیٹ میں پائے جانے والے مائع جات میں کلورائیڈ ضرور شامل ہوتا ہے۔ یہی مائع غذا پیس کر ہضم کرتے ہیں۔
نمک کی کمی ہو جائے
انسانی جسم میں کلورائیڈ کی کمی ہو جائے تو انسان ایک طبی خلل ’’ہائپوکلوریمیا‘‘ (Hypochloremia) کا شکار ہو جاتا ہے۔اسی طرح سوڈیم کی کمی سے بھی انسان کو’’ہائپونٹریمیا‘‘ (hyponatremia)نامی خلل چمٹ جاتا ہے۔ ان دونوں طبی خرابیوں میں مبتلا ہو کر انسان بخار، تھکن، سر درد، عضلات میں اینٹھن، سانس لینے میں دشواری، کنفیوژن، جسم میں سوزش، جسمانی کمزوری اور ورم محسوس کرتا ہے۔ اگر نمک کی کمی مسلسل رہے تو انسان مر بھی سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ دماغ کے مائع جات نمک کی عدم موجودگی سے بے توازن ہو کر اسے مار ڈالتے ہیں۔
نمک کتنا کھانا چاہیے؟
ماضی میں ماہرین طب کا کہنا تھا کہ ایک بالغ انسان روزانہ ایک چمچی (teaspoon) نمک ضرور استعمال کرے تاکہ اسے دونوں اہم کیمیائی عناصر میسر آ جائیں اور وہ ان کی کمی سے پیدا ہونے والے طبی بگاڑوں میں نہ مبتلا ہو۔ ایک چمچی نمک 2300 ملی گرام بنتا ہے۔ حال ہی میں لیکن امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن نے اعلان کیا ہے کہ ایک چمچی نمک روزانہ کا استعمال بھی زیادہ ہے۔ انسان کو روزانہ 1500ملی گرام نمک ہی کھانا چاہیے۔گویا اب نمک کی روزانہ مقدار آدھی چمچی سے کچھ زیادہ ہو گئی ہے۔ اس سے زیادہ نمک کھانے سے صحت کے لیے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
انسان روزانہ مختلف کھانے کھا کر آدھی چمچی سے زیادہ نمک حاصل کر لیتا ہے۔ اسی لیے جسم میں دونوں عناصر (سوڈیم اور کلورائیڈ) کی کمی عموماً جنم نہیں لیتی۔ البتہ کوئی وزن کم کرنے کے لیے ڈائٹنگ کرنے لگے تو اسے خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کسی بھی طرح روزانہ آدھی چمچی نمک ضرور کھا لے۔ یوں اسے مطلوبہ عناصر ملتے رہیں گے ورنہ وہ سوڈیم اور کلورائیڈ کی کمی سے وابستہ طبی خرابیوں کا شکار ہو جائے گا۔
ایک خطرناک عمل
انسان مگر روزانہ زیادہ نمک کھانے لگے، مثلاً ڈیرھ یا دو چمچی تو یہ خطرناک عمل ہے۔ وجہ یہ کہ جسم میں نمک کی زیادتی ہو جائے تو انسان کو پیاس لگتی ہے اور وہ زیادہ پانی پیتا ہے، تاکہ زائد پانی کی مدد سے گردے ضرورت سے زیادہ نمک پیشاب کے راستے باہر نکال دیں۔ یہ ایک قدرتی عمل ہے جو دماغ کے حکم سے انجام پاتا ہے۔ یہ بظاہر انسان کو نمک کی زیادتی سے جنم لینے والی خرابیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کا بننا
اس قدرتی عمل کا مگر ایک منفی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ زیادہ پانی پینے سے قدرتاً ہمارے خون میں بھی پانی کی زیادتی ہو جاتی ہے۔ معنی یہ کہ خون کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے۔ چناں چہ اس زیادتی کا پہلا نقصان یہ ہے کہ ہمارے دل کو زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے تاکہ سارے خون کو جسم کے کونے کونے تک پمپ کر سکے۔ دوسرا نقصان یہ ہے کہ خون کی نالیوں پہ دبائو بڑھ جاتا ہے اور وہ غیر قدرتی انداز میں پھیل جاتی ہیں۔ یہ ایک طبی خرابی ہے جسے ’’ہائی بلڈ پریشر‘‘ یا ’’ہائپرٹینشن‘‘ کہا جاتا ہے۔
ہائی بلڈ پریشر نہایت خطرناک طبی کیفیت ہے کیونکہ عام طور پہ اس کے اثرات ظاہر نہیں ہوتے۔ انسان جب خون کا دبائو چیک کرائے تبھی اس کا پتا چلتا ہے۔ یہ مرض انسانی جسم کے اہم ترین اعضا … دماغ، دل اور گردے خراب کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اسی لیے اسے تباہ کن بیماری کہا جاتا ہے۔ اور اسے جنم دینے میں نمک کا بھی نمایاں کردار ہے جیسے کہ درج بالا حقائق سے نمایاں ہوا۔
ہارمونوں کے نظام میں گڑبڑ
نمک کا مگر ذیابیطس قسم دوم سے کیا تعلق ہے؟ اور کیا نمک یہ موذی بیماری جنم دینے کا بھی باعث بنتا ہے؟ جدید ترین طبی تحقیق نے انکشاف کیا ہے کہ نمک براہ راست تو نہیں البتہ بلواسطہ طریقے سے ضرور ذیابیطس قسم دوم کو جنم دیتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان جب زیادہ نمک کھائے تو اس کے جسم میں ’’گلوکوکورٹیکوئیڈز‘‘ (Glucocorticoids) زیادہ تعداد میں بننے لگتے ہیں۔
یہ انسانی بدن میں بننے والے سٹیرائیڈ ہارمون ہیں۔ یہ ہر جاندار میں گلوکوز (شکر) بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ہر زندہ کے لیے توانائی کا بنیادی ماخذ ہے۔ انسانی جسم میں جب نمک زیادہ کھانے سے ’گلوکوکورٹیکوئیڈز‘ کی مقدار بڑھ جائے تو وہ قدرتاً گلوکوز بھی زیادہ بنانے لگتے ہیں۔ نمک کی مقدار کم رہے تو قدرتی طور پہ گلوکوکورٹیکوئیڈز بھی کم گلوکوز بناتے ہیں۔
اس طرح خون میں گلوکوز کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر انسان مسلسل نمک زیادہ کھاتا رہے تو گلوکوکورٹیکوئیڈز بھی زیادہ جنم لیتے ہیں۔ اور وہ اپنا قدرتی کردار ادا کرتے ہوئے زیادہ گلوکوز بناتے ہیں۔ ہمارا لبلبہ ایک ہارمون ، انسولین خارج کر کے خون میں گلوکوز کی مقدار کم کرتا ہے۔ مگرمسلسل نمک اور زیادہ کھانے کی وجہ سے خون میں گلوکوز کی مقدار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ انسولین اسے سرتوڑ کوشش کے باوجود کم نہیں کر پاتا۔ تبھی ذیابیطس قسم دوم کا مرض پیدا ہوتا ہے اور انسان رفتہ رفتہ اس کی لپیٹ میں آنے لگتا ہے۔اس مرض میں لبلبے سے انسولین خارج کرنے والا نظام بھی خراب ہو جاتا ہے اور خون میں گلوکوز کی سطح متوازن نہیں رکھ پاتا۔
میٹابولک سنڈروم
ایک انسان اگر فربہ ہے، خاص طور پہ اس کے پیٹ اور کولھوں پہ چربی کی تہیں چڑھی ہیں۔ دوسرے اس کو ہائی بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق ہے۔ تیسرے اس کے خون میں شکر کی سطح مسلسل بلند رہتی ہے ۔ تو کہا جائے گا کہ یہ تینوں کیفیتیں رکھنے والا بدقسمت انسان ’’میٹابولک سنڈروم‘‘ میں گرفتار ہے۔ اس طبی خرابی کی دو کیفیتیں اور بھی ہیں: خون میں اچھے کولیسٹرول یعنی ایچ ڈی ایل (high-density lipoprotein)کی مقدار کم ہونا اورخون میں مضر صحت چکنائی (Triglycerides) کی سطح بلند ہونا۔
میٹابولک سنڈروم میں گرفتار انسان جلد امراض قلب، ذیابیطس، امراض گردہ اور امراض جگر کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ کیفیت مرد کو جنسی طور پہ ناکارہ کر دیتی ہے۔ عورت بھی بانجھ پن میں مبتلا ہو جاتی ہے۔اس طبی خرابی سے نجات کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان کم کھائے۔ نمک اور چینی کا استعمال ختم کر دے۔ ورزش کرے تاکہ وزن کم ہو سکے۔ پھلوں اور سبزیوں کو روزمرہ غذا میں شامل کرے۔ گوشت اعتدال سے کھائے۔ سگریٹ نوشی سمیت کسی قسم کا نشہ نہ کرے۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ ہر انسان کو خاص طور پہ دھیان رکھنا چاہیے کہ وہ روزانہ کتنی مقدار میں نمک کھا رہا ہے۔ ہمارے جسم کو نمک درکار ہے کیونکہ یہ معدن اہم جسمانی افعال انجام دینے میں ہماری مشینری کا مددگار بنتا ہے۔ لیکن حد سے زیادہ نمک کھانا اور بہت تھوڑا کھانا … یہ دونوں عمل ہمارے لیے طبی طور پہ نقصان دہ ہیں۔ لہذا اعتدال سے نمک کھائیے اور خود کو صحت مند رکھیے، جو دنیا کی قیمتی ترین دولت ہے۔ ہزاروں سال پہلے بدھا نے کہا تھا: ’’جسمانی صحت کو بہترین رکھنا ہر انسان کی ذمے داری ہے ورنہ وہ اپنے دماغ کو طاقتور اور صاف نہیں رکھ سکے گا۔‘‘