پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں پیر کے روز شدید مندی دیکھنے میں آئی، جہاں بینچ مارک کے ایس ای 100 انڈیکس 11 بج کر 57 منٹ پر 6,287 پوائنٹس یا 5.59 فیصد کمی کے ساتھ 112,504 پوائنٹس پر آ گیا۔ صبح 10 بجے یہ انڈیکس 118,791 کی سطح پر موجود تھا۔
رفح کے قریب ایمبولینس قافلے پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ، ویڈیو نے ابتدائی دعوے غلط ثابت کر دیے
اے کے ڈی سیکیورٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ، اویس اشرف کے مطابق اس گراوٹ کی بڑی وجہ سرمایہ کاروں کی وہ تشویش ہے جو امریکی صدر کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے نتیجے میں عالمی سطح پر کساد بازاری کے امکانات سے پیدا ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان کی معیشت درآمدات پر انحصار کرتی ہے، اس لیے عالمی اجناس کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان کو کچھ حد تک فائدہ ہو سکتا ہے۔
چیس سیکیورٹیز کے ڈائریکٹر ریسرچ، یوسف ایم فاروق نے بھی عالمی کساد بازاری کے خدشے کو ایشیائی مارکیٹوں میں بڑی گراوٹ کی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کے ایس ای 100 انڈیکس میں 2.5 فیصد کمی آئی ہے، لیکن یہ کمی دیگر علاقائی مارکیٹوں کے مقابلے میں نسبتاً کم ہے۔
تیل اور بینکنگ سیکٹرز میں فروخت کے دباؤ نے بھی مارکیٹ پر اثر ڈالا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے تیل کی تلاش میں مصروف کمپنیوں کی آمدنی متاثر ہونے کا امکان ہے، جب کہ امریکی ٹیرف سے پاکستانی ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ ٹیرف ٹیکسٹائل سیکٹر کے لیے قلیل مدتی چیلنجز پیدا کرتے ہیں، لیکن اجناس کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان میں افراط زر میں کمی اور ممکنہ طور پر شرح سود میں کمی ہو سکتی ہے، جو معیشت کے لیے مثبت پہلو ہو گا۔
یوسف فاروق نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ پاکستانی مصنوعات پر عائد محصولات کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرے اور بین الاقوامی سطح پر مذاکرات کا آغاز کرے۔
ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے سی ای او محمد سہیل کے مطابق بھی یہ کمی عالمی مارکیٹوں میں گراوٹ کی عکس بند کرتی ہے۔
ایشیا بھر کی مارکیٹوں میں بھی مندی چھائی رہی، ہانگ کانگ میں 10 فیصد، ٹوکیو میں 8 فیصد اور تائی پے میں 9 فیصد سے زائد کمی ریکارڈ کی گئی۔ چین کی جانب سے امریکہ کی مصنوعات پر 34 فیصد جوابی ٹیرف اور نایاب زمینی عناصر پر برآمدی کنٹرول نے صورتحال کو مزید سنگین کر دیا۔
ٹرمپ کے بیانات کہ وہ تجارتی خسارے کے خاتمے تک کسی معاہدے کے لیے تیار نہیں، نیز ان کا اصرار کہ "کبھی کبھار کسی چیز کو ٹھیک کرنے کے لیے سخت اقدامات ضروری ہوتے ہیں”، نے مارکیٹ کے خدشات کو اور بڑھا دیا۔
ایشیا میں کوئی بھی شعبہ اس مندی سے محفوظ نہ رہا—ٹیکنالوجی، آٹوموبائل، بینکنگ، توانائی، سب ہی متاثر ہوئے۔ علی بابا سافٹ بینک، اور سونی سمیت بڑے برانڈز کے شیئرز میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی۔
موڈیز اینالٹکس کے اسٹیو کوچرن کے مطابق اگر امریکہ کساد بازاری کا شکار ہوا، تو چین سمیت دیگر بڑی معیشتیں بھی متاثر ہوں گی۔ تیل کی قیمتیں 2021 کے بعد نچلی سطح پر آ چکی ہیں اور تانبے جیسی اجناس بھی دباؤ کا شکار ہیں۔
ایس پی آئی ایسٹ مینجمنٹ کے اسٹیفن انس کے مطابق "مارکیٹ فری فال موڈ میں ہے”، جب کہ فیڈرل ریزرو کے جیروم پاول نے بھی تسلیم کیا ہے کہ امریکی ٹیرف افراط زر اور کساد کا باعث بن رہے ہیں۔
ٹرمپ کے اقدامات نے امریکی سینٹرل بینکرز کو بھی مخمصے میں ڈال دیا ہے، جہاں ایک طرف افراط زر بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف معیشت کو سہارا دینے کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے۔