برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (PRCS) کی ایمبولینسوں، اقوامِ متحدہ کی ایک گاڑی، اور غزہ کے شہری دفاع کے فائر ٹرک پر رفح کے قریب فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں متعدد طبی اہلکار شہید ہوئے۔
مانچسٹر ڈربی بغیر گول کے ختم، اموریم کہتے ہیں ہر پہلو میں بہتری کی ضرورت ہے
موبائل فوٹیج سے پردہ فاش:
واقعے کی موبائل ویڈیو جسے شہید طبی کارکن رفعت رضوان نے ریکارڈ کیا، میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ:
ایمبولینسوں کی لائٹس روشن تھیں۔
گاڑیوں پر واضح میڈیکل نشانات موجود تھے۔
طبی عملہ وردی میں اور غیر مسلح تھا۔
اسرائیلی فوج کی بدلتی بیانات:
ابتدائی دعویٰ: قافلہ بغیر ہیڈلائٹس کے مشکوک انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔
بعد ازاں اعتراف: گاڑیاں لائٹس آن کیے ہوئے تھیں، اور فوجی خطرہ "محسوس” کر کے فائرنگ پر مجبور ہوئے۔
مزید تضاد: کہا گیا کہ طبی عملے میں سے کم از کم 6 افراد کا تعلق حماس سے تھا، لیکن کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔
شہداء اور ویڈیو کے مناظر:
رفعت رضوان کی شہادت سے قبل کی ویڈیو میں وہ کلمہ پڑھتے اور دعا کرتے نظر آتے ہیں۔
ویڈیو میں اسرائیلی فوجیوں کی آوازیں اور پھر بغیر وارننگ کے فائرنگ سنائی دیتی ہے۔
لاشوں کو بعد ازاں ریت میں دفن کیا گیا، جس کا دعویٰ کیا گیا کہ "جنگلی جانوروں سے بچانے” کے لیے کیا گیا، لیکن بین الاقوامی ٹیموں کو رسائی نہیں دی گئی۔
بین الاقوامی ردعمل:
اقوامِ متحدہ اور دیگر ادارے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہلالِ احمر نے واضح کیا کہ شہید طبی اہلکاروں کا کسی عسکری گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
زندہ بچنے والے اہلکار نے بھی بی بی سی کو بتایا کہ لائٹس روشن تھیں اور کوئی مسلح نہیں تھا۔
پس منظر اور جاری تباہی:
18 مارچ کے بعد اسرائیل نے رفح پر شدید حملے شروع کیے۔
غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 1200 سے زائد افراد ان حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اب تک غزہ میں 50,600 سے زائد فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا وعدہ:
آئی ڈی ایف (اسرائیلی ڈیفنس فورسز) نے کہا ہے کہ وہ اس واقعے کی "مکمل جانچ” کرے گی اور واقعات کی ترتیب کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی، تاہم اعتماد کا فقدان اور ثبوتوں کا تضاد عالمی برادری میں شدید تشویش کا باعث بن چکا ہے۔