سپریم کورٹ نے سابق منتظم جج انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) سید ذاکر حسین کی اپیل پر پراسیکیوٹر جنرل سندھ، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور شکایت کنندہ کو نوٹس جاری کر دیے۔
امریکی سائبر کمانڈ کے سربراہ جنرل ٹموتھی ہاؤگ اچانک برطرف وجوہات سامنے نہ آسکیں
ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے 18 فروری کو پراسیکیوشن کی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے منتظم جج کے اختیارات کسی اور عدالت کو منتقل کرنے کی سفارش کی، جو کہ غیر منصفانہ ہے۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے ان کے خلاف سخت ریمارکس دیے، بغیر کوئی جواب طلب کیے یا مؤقف پیش کرنے کا موقع دیے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 10-A کی خلاف ورزی ہے۔
اپیل میں کیا استدعا کی گئی؟
درخواست گزار نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ:
سندھ ہائی کورٹ کے سخت ریمارکس کو حذف کیا جائے۔
ان کے طویل عدالتی کیریئر پر لگے داغ صاف کیے جائیں۔
پس منظر: مصطفیٰ عامر اغوا اور قتل کیس
واضح رہے کہ مصطفیٰ عامر اغوا اور قتل کیس میں مرکزی ملزم ارمغان قریشی کو پولیس مقابلے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ سید ذاکر حسین نے ملزم کو جسمانی ریمانڈ دینے کے بجائے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔
ہائی کورٹ کا ردعمل اور فیصلہ
بعدازاں جسٹس ظفر احمد راجپوت نے انسداد دہشت گردی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر ریمانڈ کی چاروں درخواستیں منظور کر لیں۔
سماعت کے دوران جسٹس ظفر احمد راجپوت نے ریمارکس دیے کہ:
"پورا آرڈر ٹائپ کیا گیا ہے، مگر ہاتھ سے وائٹو لگا کر جوڈیشل ریمانڈ لکھا گیا ہے، جو مشکوک ہے۔”
اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس اپیل پر کیا فیصلہ دیتی ہے۔