کراچی: (دنیا نیوز) 20 نومبر 1971ء وہ تاریخی دن تھا جب پاکستان بھر میں عید الاضحی کا تہوار دینی جوش و جذبے سے منایا جا رہا تھا، لیکن اسی روز کراچی کے ساحل پر پاک بحریہ کے افسران اور جوان اپنے عزیزوں سے الوداع کہہ رہے تھے۔ ان کی چھٹیاں منسوخ ہوچکی تھیں اور وہ پاک بحریہ کی آبدوز "پی این ایس ہنگور” کے عملے میں شامل ہو کر وطن کے دفاع کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ ان کے عزیزوں کے لبوں پر دعائیں تھیں کہ اللہ ان کو سلامت رکھے اور پاکستان کی حفاظت کرے۔
فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سول نافرمانی کی کال کے ذریعے فیض حمید کیس پر دباؤ ڈالنا چاہتی ہے
22 نومبر 1971ء کو بھارت نے مشرقی پاکستان میں در اندازی شروع کر دی تھی، جس کے جواب میں پاک بحریہ نے فوری طور پر اپنے سمندری آپریشنز شروع کر دیے۔ 3 دسمبر 1971ء کو بھارت نے مغربی پاکستان میں بھی حملہ کیا، جس پر پاکستان کی تمام عسکری قوتیں میدان میں آگئیں۔ اس وقت پاک بحریہ کو اپنے شجاع افسران اور سیلرز کی بہادری دکھانے کا موقع ملا۔
پی این ایس ہنگور، جو کہ فرانس سے خریدی گئی ڈیفنی کلاس کی آبدوز تھی، 26 نومبر 1971ء کو بھارتی بحری بیڑے کی تلاش کے لیے روانہ ہوئی، جس کا مقصد کراچی پر حملے کی تیاری کرنے والے بھارتی بیڑے کو ناکام بنانا تھا۔ آبدوز کے عملے نے ایک ہفتے تک دشمن کے جہازوں کا پیچھا کیا اور 2 دسمبر کو انہیں بھارتی جنگی جہاز "آئی این ایس میسور” کا سراغ ملا۔
9 دسمبر 1971ء کو وہ تاریخی لمحہ آیا جب پی این ایس ہنگور نے بھارتی جہازوں "آئی این ایس ککری” اور "آئی این ایس کرپان” کو بمبئی کے قریب پایا۔ آبدوز نے ان جہازوں پر تارپیڈو داغ کر ان دونوں کو غرق کر دیا۔ اس حملے میں ایک سو ساٹھ بھارتی بحری اہلکار ہلاک ہوئے اور بھارت کی بحری طاقت کو شدید نقصان پہنچا۔
پاک بحریہ کے افسران اور سیلرز نے اس کامیابی کا جشن منایا، اور 13 دسمبر 1971ء کو وہ کراچی واپس پہنچے جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ تین افسران کو ستارہ جرات اور چھ سیلرز کو تمغہ جرات سے نوازا گیا۔
آج بھی پاک بحریہ پاکستان کے ساحلی علاقے سے لے کر سمندری حدود تک ملک کے دفاع کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور اس تاریخی کامیابی کا دن ہمیں اس جذبے کا احساس دلاتا ہے جس کے تحت پاک بحریہ نے دشمن کے غرور کو خاک میں ملایا۔