دارالحکومت اسلام آباد کی آبپارہ پولیس نے کار سرکار میں مداخلت کے الزام میں معروف وکیل اور سماجی کارکن ایمان مزاری کو شوہر سمیت گرفتار کر لیا۔
یونیسکو کی ایک نئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر آزاد میڈیا اور صحافیوں کو نشانہ بنانے اور انہیں خاموش کرنے کے لیے مالی جرائم کا غلط استعمال بڑھ رہا ہے۔
مختصر لباس پہننے والوں کو گالیاں دینا عوام کا حق ہے، مائرہ خان
تشکر اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ’صحافیوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس پر ڈالے جانے والے دباؤ، خاموش کرانے کی کوششوں اور دھمکیاں دینے کے لیے مالیاتی قوانین کے غلط استعمال‘ کے عنوان سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ مالیاتی جرائم میڈیا اور صحافیوں کو خاموش کرنے میں کارگر ثابت ہوتے ہیں کیونکہ انہیں تیار کردہ مواد کے لنک کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی بین الاقوامی جانچ پڑتال جیسے قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ رپورٹ یونیسکو سیریز ’آزادی اظہار اور میڈیا کی ترقی میں عالمی رجحانات‘ کا حصہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ صحافی یا میڈیا آؤٹ لیٹ کی ساکھ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں اور بھاری قانونی فیس اور جرمانے ادا کرنے پر مجبور کرتے ہیں جو ان کے لیے اب مالی طور پر قابل عمل نہیں ہے۔
رپورٹ میں اہم رجحانات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ آزاد صحافیوں اور میڈیا اداروں کو خاموش کرنے کے لیے مالیاتی قوانین پر مبنی مخصوص الزامات کا استعمال کثرت سے بڑھتا جا رہا ہے جس سے اظہار رائے کی آزادی پر شدید اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں 2005 سے 2024 کے عرصے کے دوران رونما ہونے والے اس طرح کے الزامات کے حامل جن 120 کیسز کا جائزہ لیا گیا، ان میں سے 60 فیصد 2019 اور 2023 کے درمیان رونما ہوئے جو صحافیوں کے خلاف ان الزامات کے استعمال میں تیزی سے اضافے کا منہ بولتا ثبوت ہے، چونکہ یہ نمایاں طور پر ایک نیا رجحان ہے جس کے بارے میں انتہائی کم رپورٹ کیا جاتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس طرح کے مقدمات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
جن مقدمات کا جائزہ لیا گیا ان میں سے کم از کم 56 میں مبینہ طور پر بھتہ خوری کے الزامات لگائے گئے ہیں جن میں سے زیادہ تر ایشیا اور بحرالکاہل اور مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا میں رونما ہوئے، اس کے بعد ٹیکس چوری اور منی لانڈرنگ صحافیوں اور میڈیا اداروں کے خلاف سب سے زیادہ غلط استعمال کیے جانے والے الزامات ہیں۔
ایشیا اور بحرالکاہل میں 44 مقدمات کا جائزہ لیا گیا جن میں سے بہت سے صحافیوں کے گروپوں پر مشترکہ طور پر الزامات عائد کیے گئے، ان معاملات میں ٹیکس چوری یا ٹیکس فراڈ، بھتہ خوری، منی لانڈرنگ اور غیر قانونی طور پر غیر ملکی فنڈز کے حصول جیسے الزامات پیش پیش تھے، ابتدائی پانچ کیسز 2005 میں ریکارڈ کیے گئے تھے لیکن ان میں سے نصف سے زیادہ کیسز پچھلے چار سالوں (2020-2024) میں رپورٹ ہوئے۔
20 کیسز میں متعدد الزامات لگائے گئے اور 23 مقدمات میں صحافیوں کو مقدمے سے پہلے حراست میں رکھا گیا جبکہ سات مقدمات میں پانچ سے 15 سال کے درمیان قید کی سزا سنائی گئی۔
مالیاتی جرائم سے متعلق قانونی مقدمات کی پیچیدگیوں سے نمٹنے کے لیے ٹیکس اور دیگر قانونی مہارت تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے جو اکثر آزاد صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کی دسترس سے باہر ہوتی ہے۔
اس طرح کے کیسز میں صحافیوں کے گروپوں پر مشترکہ طور پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور مدعا علیہان کو اکثر ایک ساتھ متعدد الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس طرح ہراسانی کے معاملات اکثر مظاہروں اور انتخابی مہموں کے دوران دیکھنے کو ملتے ہیں جس میں تنقید کرنے والوں کی آوازوں کو خاموش اور بند کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
عام طور پر دیگر الزامات کے ساتھ لایا جاتا ہے اور آزاد میڈیا اور صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے قانون کے وسیع پیمانے پر استعمال کی نشاندہی کرتا ہے اور مالیاتی چارجز کا استعمال سیلف سنسرشپ کو جنم دیتا ہے۔
ٹیکس کے قانون کی پیچیدہ باریکیوں کو سمجھنے کے لیے انہیں عام طور پر قانونی مہارت کے حامل مخصوص افراد کی خدمات کے حصول کے لیے بھاری ادائیگیاں کرنی پڑتی ہیں اور بہت سی صورتوں میں یہ الزامات طویل عرصے تک لگتے ہیں کیونکہ اس بات کا امکان رہتا ہے کہ یہ الزامات کے ساتھ ان لوگوں پر اضافی چارجز لگائے جائیں گے جو پہلے سے ہی اسی طرح کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔
جو لوگ صحافیوں اور میڈیا کے دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ تیزی سے اپنے آپ کو انہی خطرات کا شکار پا رہے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سی مثالیں دیکھنے کو ملیں جس میں الزامات کا سامنا کرنے والے مؤکلوں کا دفاع کرنے والے وکلا بھی اس قسم کی عدالتی ہراسانی کا شکار ہوتے ہیں اس لیے انہیں بھی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بدعنوانی سے لڑنے کے لیے بنائے گئے میکانزم میں خلا ہے، بہت سے انسداد بدعنوانی کنونشنز اور ٹولز صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے غیر موثر سمجھے جاتے ہیں اور یہاں تک کہ ان کا غلط استعمال بدعنوانی کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں ریاستوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ انسداد بدعنوانی کے قوانین کے متناسب استعمال پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) اور مالیاتی احتساب، شفافیت اور سالمیت (FACTI) کی سفارشات پر عمل کریں۔
یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آڈری ازولے نے کہا کہ صحافی معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں، غلط کاموں کی تحقیقات کر کے شفافیت کو فروغ دیتے ہیں، انہیں کبھی بھی مالی جرائم کے بے بنیاد الزامات کے ساتھ نشانہ یا انہیں خاموش کرنے کے لیے قانونی طور پر ہراساں نہیں کیا جانا چاہیے۔
نیوز کے مطابق آپبارہ پولیس نے کارسرکار میں مداخلت پر ایمان مزاری کو شوہر سمیت گرفتار کر لیا۔
ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی جانب سے روٹ کی خلاف ورزی کی گئی تھی اور دونوں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
ذرائع کے مطابق اس موقع پر ایمان مزاری کی جانب سے پولیس اہلکاروں کو دھکے دینے کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر گالیاں بھی دی گئی تھیں۔
بعدازاں دونوں میاں بیوی وہاں لگے ہوئے بیرئیرز خود ہٹاکر چلے گئے تھے۔
واضح رہے کہ چند دن قبل ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی جہاں پاکستان کے دورے پر آئی انگلینڈ کی ٹیم کے لیے راستے بند کیے جانے پر ان کی ٹریفک پولیس اہلکاروں سے تکرار ہوئی تھی۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ٹیسٹ سیریز کا تیسرا میچ راولپنڈی میں کھیلا گیا تھا اور ٹیم کے اسٹیڈیم آنے اور وہاں سے واپس ہوٹل جاتے ہوئے مخصوص راستے کچھ دیر کے لیے بند کیے جاتے تھے۔
جمعہ کو بھی انگلینڈ کی ٹیم کی اسٹیڈیم روانگی کے موقع پر اسلام آباد کی زیرو پوائنٹ انٹرچینج پر راستے بند کیے گئے تھے اور اسی موقع پر راستے بند کیے جانے پر ایمان مزاری اور ان کے شوہر کی ٹریفک پولیس اہلکاروں سے تلخ کلامی ہوئی تھی اور انہیں سڑکوں پر لگی رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے بھی دیکھا گیا تھا۔
اسلام آباد پولیس نے واقعے کے بعد بیان میں کہا تھاکہ اس جوڑے نے سرکاری مہمانوں کی حفاظت کے لیے کیے گئے ایس او پیز کی خلاف ورزی کی اور ان کے خلاف کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری مہمانوں کی سیکیورٹی میں افراتفری پھیلانے پر مقدمہ درج کیا جائے گا۔
ایمان مزاری کو انصاف کے محتاج لوگوں کی مدد کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، وہ خواتین کے تشدد اور ظلم کے خلاف بھی آواز اٹھاتی آئی ہیں۔
وہ ماضی میں جبری گمشدگیوں کے معاملے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتی رہی ہیں جس کی وجہ سے انہیں اسلام آباد پولیس نے گرفتار بھی کیا تھا، والدہ شیریں مزاری کی گرفتاری پر بھی انہیں ان کے شانہ بشانہ کھڑے دیکھا گیا۔