اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کو آج 3 بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش کرکے وکلا سے ملاقات کا حکم دیدیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں عدالتی حکم کے باوجود بانی پی ٹی سے جیل میں ملاقات پر پابندی کے خلاف جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
جن مقدمات میں قانون چیلنج ہوا ہے، ان کی الگ کیٹیگری بنانے کی ہدایت جاری کردیں، نامزد چیف جسٹس
عدالتی حکم پر جیل سپرنٹینڈنٹ غفور انجم اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوئے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور اسٹیٹ کونسل بھی عدالت میں پیش ہوئے جب کہ درخواست گزار کی جانب سے فیصل چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
اسٹیٹ کونسل نے بتایا کہ عدالت کی سماعتیں نہیں ہو رہی تھیں اس لئے ان کی ملاقات نہیں کرائی گئی، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں حکومت ایک نوٹیفکیشن سے انصاف کی فراہمی کا عمل روک سکتی ؟
فاضل جج نے کہا کہ درخواست گزار کہہ رہا ہے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہوئی، میں یہ نہیں کہہ رہا نوٹیفکیشن درست ہے یا نہیں اس کے لیے تو ان کو الگ سے پٹیشن جاری کرنے کی پڑے گی لیکن عدالتی حکم کے باوجود ملاقات سے انکار عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔
اسٹیٹ کونسل نے کہا کہ پنجاب حکومت نے لا اینڈ آرڈر صورتحال کی بنیاد پر جیل ملاقاتوں پر پابندی لگائی ہے، جسٹس سردار اعجاز نے استفسار کیا وکلا کی ملاقاتوں پر بھی پابندی لگا دی گئی؟
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ریمارکس دیے کہ جس نے یہ نوٹیفکیشن ایشو کیا اس نے بھی توہینِ عدالت کی ہے، حکومتِ پنجاب نے اگر وکلا کی ملاقات روکی تو توہینِ عدالت کی ہے، اس پر وزارتِ داخلہ رپورٹ جمع کرائے کہ کیا سیکیورٹی وجوہات تھیں۔
درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ 3 اکتوبر سے آج تک وکلا کی جیل ملاقات نہیں کرائی گئی۔
شعیب شاہین ایڈوکیٹ نے کہا کہ ہم اگر جیل چلے جاتے تو کیا ہم سے کوئی سیکیورٹی تھریٹ ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے وزارتِ داخلہ کے جوائنٹ سیکریٹری کو ریکارڈ کے ہمراہ طلب کرلیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل آفس کو بھی عدالتی معاونت کیلئے نوٹس جاری کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سپریڈنٹ اڈیالہ جیل کو حکم دیا کہ بانی پی ٹی آئی کو آج تین بجے اسلام آباد ہائیکورٹ میں لا کر وکلا سے ملاقات کروائیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیے کہ مجھے پتہ ہے آپ میرے حکم پر عمل درآمد نہیں کریں گے، آپ سیکیورٹی کے انتظامات کریں اور عمران خان کو عدالت میں لائیں، اگر نہیں لا سکے تو کل آپ عدالت کو بتائیں گے کہ کیوں پیش نہیں کر سکے۔
سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران نامزد چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیے ہیں کہ جن مقدمات میں کوئی قانون چیلنج ہوا ہے، ان کی الگ کیٹیگری بنانے کی ہدایت جاری کر دی ہیں۔
عدالت نے اسلام آباد میں شُفہ سے متعلق مقدمہ آئینی بنچ کو بھجوا دیا، اس کیس کی سماعت نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں تو آئینی شقوں کی تشریح کرنا ہوگی، یہ مقدمہ تو اب آئینی بینچ کو منتقل ہونا چاہیے۔
وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیے کہ میں یہ کہنا نہیں چاہتا تھا لیکن ہونا یہی چاہیے، جس پر نامزد چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس کو آئینی بنچ کے حوالے سے پالیسی دے دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آفس کو ہدایت کی ہے جن مقدمات میں کوئی قانون چیلنج ہوا ہے ان کی الگ کیٹیگری بنائی جائے، نامزد چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جن مقدمات میں آئین کی تشریح کی ضرورت ہوئی وہ ساتھ ساتھ منتقل کرتے رہیں گے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے مختلف بینچز نے گزشتہ روز بھی 4 مقدمات آئینی بینچ منتقل کر دیے تھے۔
21 اکتوبر کو منظور کردہ 26 ویں آئینی ترمیم میں عدالتی بینچوں کی تشکیل کے لئے آئین میں ایک نیا آرٹیکل 191۔اے (سپریم کورٹ کی آئینی بینچ) شامل کیا گیا ہے۔
شق نمبر 1 میں کہا گیا ہے ’سپریم کورٹ کے آئینی بینچ ہوں گے جن میں سپریم کورٹ کے ججز شامل ہوں گے، جن کی نامزدگی اور مدت کا تعین جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا جب کہ آئینی بینچوں میں تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے ججز کی برابر نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔
آرٹیکل 191 اے کی شق 2 اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سب سے سینئر جج آئینی بینچوں کا پریزائیڈنگ جج ہوگا۔
شق 3 آئینی بینچوں کے علاوہ سپریم کورٹ کے بینچوں کو ’سپریم کورٹ کو تفویض کردہ مندرجہ ذیل دائرہ اختیارات ’ کو محدود کرتا ہے:
(الف) آرٹیکل 184 کے تحت سپریم کورٹ کا اصل دائرہ اختیار؛
(ب) آرٹیکل 185 کی شق 3 کے تحت سپریم کورٹ کے اپیلیٹ دائرہ اختیار میں، جہاں آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ کا کوئی فیصلہ یا حکم کسی قانون کی آئینی حیثیت یا آئین کی تشریح کے بارے میں قانون کے سوال کو شامل کرتا ہے؛
(ج) آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ اختیار؛
شق نمبر4 کے تحت شق 2 کے مقاصد کے لیے کم از کم 5 ججوں پر مشتمل بینچ ہو، جسے پریزائیڈنگ جج اور شق 1 کے تحت نامزد ججوں میں سے 2 سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی نامزد کرے گی، اور یہ بینچ ایسے معاملات کی سماعت کرے گا۔
آرٹیکل 191 اے کی شق 5 کے مطابق 26ویں ترمیم کے نفاذ سے قبل سپریم کورٹ میں دائر کیے گئے فیصلوں کے خلاف تمام درخواستیں، اپیلیں یا نظرثانی کی درخواستیں، جن پر شق 2 لاگو ہوتی ہے، اب آئینی بینچوں کو منتقل کردی جائیں گی اور صرف شق 3 کے تحت تشکیل دیے گئے بینچ ان کی سماعت اور فیصلہ کریں گے۔
شق نمبر6 کے ذریعے شق نمبر1 میں نامزد ججوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ آئینی بینچوں کے طرز عمل اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے لیے قواعد وضع کرسکتے ہیں، ’چاہے آئین میں کچھ بھی موجود ہو لیکن قانون کے تابع ہو‘۔
یاد رہے کہ 23 اکتوبر کو صدر مملکت آصف علی زرداری نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تعیناتی کی منظوری دے دی جس کے بعد وزارت قانون نے ان کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا تھا۔
نئے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی تعیناتی 26 اکتوبر سے 3 سال کے لیے کی گئی ہے ۔
اس حوالے سے بتایا گیا تھا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی 26 اکتوبر کوعہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا انتخاب کیا گیا ہے، اس سے قبل الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ کا سب سے سینیئر جج ہی ملک کا چیف جسٹس ہوتا تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 25 اکتوبر کو اپنے عہدے سے ریٹائر ہو رہے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے قبل جسٹس منصور علی شاہ کو سنیارٹی اصول کے تحت اگلا چیف جسٹس پاکستان بننا تھا۔