نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کے الیکٹرک کو اکثریتی ووٹ کے ذریعے 2030 میں ختم ہونے والے 7سال پر محیط کثیر سالہ ٹیرف کے تحت اپنے تمام جنریشن پلانٹس کے لیے ڈالر کے حساب سے ایکویٹی پر 14 فیصد ریٹرن کی منظوری دے دی ہے۔
شادی کے بعد 18 سال تک شوہر نے شوبز میں کام کی اجازت نہیں دی، اسما عباس
تشکر اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کی نیپرا کے ٹیرف کے رکن نے شدید مخالفت کی اور اسے صارفین کے لیے غیر منصفانہ قرار دیا۔
کے الیکٹرک کی جانب سے دو سال قبل دائر کی گئی پٹیشن کے حوالے سے منگل کو جاری کردہ اپنے فیصلے میں نیپرا نے کے الیکٹرک کے پاور پلانٹس کے لیے ’ٹیک یا پے‘ کی بنیاد پر ٹیرف کی منظوری دی، جس میں ہائی اسپیڈ ڈیزل سمیت مختلف ایندھن کا استعمال کرتے ہیں، یہ منظوری نئے BQPS-III کے سوا بقیہ تمام پلانٹس کے لیے سات سال کی مدت یا پلانٹ کی بقیہ مدت کے لیے دی گئی ہے جہاں BQPS-III کی مدت 11سال ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ BQPS کے یونٹ-I اور یونٹ-II کی قابل افادیت مدت پہلے ہی ختم ہو چکی ہے جبکہ یونٹ-III کی مدت پوری ہونے میں بھی صرف دو سال باقی ہیں۔
نیپرا نے کمبائنڈ سائیکل آپریشنز میں ہائی اسپیڈ ڈیزل کے لیے 43.3356 روپے سے 50.7461 روپے فی یونٹ، آر ایل این جی پر مبنی پلانٹس کے لیے 20.6731 روپے سے 41.7506 روپے فی یونٹ، آر ایف او سے چلنے والے پلانٹس کے لیے 33.3197 روپے سے 34.6414 روپے فی یونٹ اور گیس سے چلنے والے پلانٹس کے لیے 6.8385 روپے سے 9.6249 روپے فی یونٹ تک ایندھن کی لاگت کی منظوری دی۔
نیپرا نے کے الیکٹرک کے تمام پلانٹس کے لیے ایکویٹی پر قرض کی مناسبت سے 70:30 کے تناسب کا مطالبہ بھی قبول کر لیا، اکثریتی اراکین نے ڈالر کے 14فیصد پر ایکویٹی پر ریٹرن کی اجازت دی جو سہ ماہی بنیادوں پر کے الیکٹرک کی اس حوالے سے 15فیصد کی درخواست سے کم تھی تاہم یہ بتایا گیا کہ حکومت آئی پی پیز کے لیے ڈالر کے حساب سے ایکویٹی پر ریٹرن کی درخواست پر نظرثانی کر رہی ہے اور نیپرا نے کے الیکٹرک کے اس دعوے کو تسلیم کیا کہ آئی پی پیز کے لیے ایکویٹی پر ریٹرن میں یکطرفہ بنیادوں پر کوئی کمی نہیں کی گئی تھی۔
نیپرا کے ٹیرف کے رکن متھر نیاز رانا نے اکثریتی فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ کے الیکٹرک کے BQPS-I (یونٹ 1-6)، KCCPP، KTGEPS، اور SGEPS کے ڈسپیچ فیکٹر 2019 سے کم ہو رہے تھے اور مالی سال23 میں BQPS-III کی شمولیت کے بعد اس میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔
انہوں نے موقف اپنایا کہ RLNG معاہدے کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر گیس کی قلت کی وجہ سے کچھ پلانٹس کام نہیں کر سکتے، مزید برآں، ایک بار انٹر کنیکٹیوٹی قائم ہونے کے بعد نیشنل گرڈ سے کے الیکٹرک کا حصہ 1ہزار میگاواٹ سے بڑھ کر 2600 میگاواٹ ہونے کی توقع ہے اور قابل تجدید ذرائع کی شمولیت کے الیکٹرک کے لیے ایک فعال ایجنڈا ہے۔
متھر رانا نے اس بات کو اجاگر کیا کہ یہ پلانٹس مجوزہ ٹیرف اسٹرکچر کے تحت بقیہ مدت کے لیے سسٹم کو خاطر خواہ توانائی فراہم کیے نغیر اپنے اصل اثاثے سے نمایاں طور پر زیادہ ادائیگیاں وصول کریں گے۔
انہوں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ ان پاور پلانٹس کے زیادہ آپریشنل اور مینٹیننس اخراجات کنٹرول کی مدت کے لیے ’ٹیک یا پے‘ ٹیرف کی ضمانت دیتے ہیں، کے ای کو سستے متبادل کی روشنی میں ان کو ختم کرنے پر غور کرنا چاہیے، انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہائی اسپیڈل ڈیزل ایک مہنگا ایندھن ہے اس وجہ سے، ’ٹیک یا پے‘ معاہدے کے تحت اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔
ایکویٹی پر ڈالر کی مناسبت سے 14فیصد ریٹرن کی مخالفت کرتے ہوئے انہوں نے اسے ضرورت سے زیادہ اور غیر منصفانہ قرار دیا اور کہا کہ کے الیکٹرک کے زیادہ تر پیداواری یونٹس براؤن فیلڈ پراجیکٹس ہیں جو پرانے موجودہ اثاثوں کو استعمال کرتے ہیں, نئے آئی پی پیز کے لیے زیادہ منافع کا استدلال اس وقت کیا جاتا ہے جب عام طور پر نئے پراجیکٹس سے منسلک خطرات اور غیر یقینی صورتحال کی تلافی کا خطرہ پیدا ہوتا ہے لیکن کے الیکٹرک پر یہ لاگو نہیں ہوتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ BQPS-III کے سوا کے الیکٹرک کے بہت سے پلانٹس نے اپنے قرضے کافی حد تک ادا کر دیے ہیں اور نئی سرمایہ کاری کے مقابلے میں انہیں کم خطرات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ریٹرن کی شرح پر نظرثانی کرنی چاہیے، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کے الیکٹرک کو ڈالر کی مناسبت سے ایکویٹری پر 14فیصد ریٹرن دینا دیگر آئی پی پیز کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے اور وہ بھی اسی طرح کی شرائط کے خواہاں ہوں گے۔
دوسری جانب، کے الیکٹرک نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پاکستان بھر میں نافذ حکومت کی یکساں ٹیرف پالیسی کی وجہ سے صارفین سے وصول کی جانے والی بجلی کی قیمتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، یہ فیصلہ 2030 کے لیے ہماری جامع سرمایہ کاری کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جہاں اس کا مقصد ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں ہونے والے نقصانات کو کم کرنا، اپنے کسٹمرز کی تعداد کو بڑھانا اور موجودہ اور مستقبل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانا ہے۔