اسلام آباد ہائی کورٹ نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر انکوائری کمیشن کی کارکردگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے خفیہ ایجنسیوں کے حکام کو ان کیمرا سماعت کے لیے طلب کرلیا۔
امریکی قانون سازوں نے ٹرمپ کے قتل کی کوشش سیکرٹ سروس کی ناکامی قرار دے دی
تشکر اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس ارباب محمد طاہر پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے بلوچ طلبہ سمیت لاپتا افراد کے کیس کی سماعت کی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل بیرسٹر منور اقبال دوگل نے انٹر سروسز انٹیلی جنس، ملٹری انٹیلی جنس اور انٹیلی جنس بیورو کے اہلکاروں کو عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست جمع کرائی۔
انہوں نے کہا کہ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کو ان کی شناخت اور نقل و حرکت کے انکشاف پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بینچ سے استدعا کی کہ لاپتا افراد سے متعلق کمیٹی میں شامل ان اہلکاروں سے ان کیمرہ بریفنگ لی جائے۔
اس پر لاپتا افراد کے وکیل ایمان مزاری نے عدالت کے روبرو دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال اگست سے اب تک 187 افراد لاپتا ہوچکے ہیں، جبری گمشدگیوں کے کیسز پر حکومت سے وضاحت طلب کی جاسکتی ہے۔
جب عدالت نے استفسار کیا کہ وکیل کو لاپتا افراد کی فہرست کیسے ملی تو ایمان مزاری نے جواب دیا کہ بلوچ یکجہتی کونسل نے فہرست مرتب کی ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ لاپتا افراد کی تفصیلات بتائیں چاہے وہ افغانستان یا کشمیر میں نظر بند ہوں، انہوں نے مزید کہا کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے حکمت عملی بنائی جا سکتی ہے۔
عدالت نے انسپکٹر جنرل بلوچستان پولیس کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کے لیے طلب کر لیا۔
بینچ نے آئندہ سماعت پر آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کے حکام کی ان کیمرہ بریفنگ کا بھی فیصلہ کرلیا۔