اسلام آباد میں 2 بچوں کو غیر قانونی طور پر 2 دن حراست میں رکھنے اور زیادتی کے الزام میں ایک سب انسپکٹر کو معطل اورگرفتار کر لیا گیا ہے۔
تشکر اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سب انسپکٹر کے خلاف کارروائی بچوں کے اہلخانہ کی طرف سے انسپکٹر جنرل آف پولیس ( آئی جی) سید علی ناصر رضوی کے پاس درج کرائی گئی شکایت پر کی گئی۔
پی ٹی آئی کی 28 ستمبر کو راولپنڈی میں جلسے کیلئے ضلعی انتظامیہ کو درخواست
رپورٹ کے مطابق شکایت میں مؤقف اپنایا گیاکہ پولیس اہلکار نے دونوں بچوں کو اٹھا کر تھانے میں بند کرنے کے علاوہ ان پر جسمانی تشدد کیا، بعد ازاں انہیں ایدھی سینٹر چھوڑ دیا۔
آئی جی پولیس نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سید علی رضا کو واقعہ کی تحقیقات اور ذمہ داروں کا تعین کرنے کا حکم دیا، تحقیقات کے دوران یہ ثابت ہو گیا کہ سب انسپکٹر نے دونوں کمسن بچوں کو 16 ستمبر کو کراچی کمپنی میں بھیک مانگتے ہوئے اٹھایا تھا، جن کی عمریں 10 اور 12 سال ہیں۔
پولیس کے مطابق بعد میں سب انسپکٹر بچوں کو شمس کالونی کے پولیس اسٹیشن لے گیا، جہاں وہ تعینات تھا اور وہاں اس نے مبینہ طور پر بچوں کو دو دن تک غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا، 18 ستمبر کو وہ بچوں کو ایدھی سینٹر لے گیا۔
شکایت کنندگان نے پولیس اہلکار پر بچوں کی غیر قانونی حراست کے دوران انہیں زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام بھی لگایا، ان الزامات پر بچوں کا طبی معائنہ کرایا گیا جس میں اس بات کی تصدیق ہوئی۔
سب انسپکٹر پر الزامات ثابت ہونے کے بعد ڈی آئی جی سید علی رضا نے انہیں معطل کرتے ہوئے ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔
رابطہ کرنے پر ڈی آئی جی نے تشکر کو بتایا کہ سب انسپکٹر زیر حراست ہے اور آئی جی پولیس کی ہدایت پر ان کو ملازمت سے برطرف کرنے کے لیے محکمانہ کارروائی کا آغاز کردیا گیا ہے۔
ڈی آئی جی پولیس سید علی رضا کا کہنا تھا کہ وفاقی پولیس قانون کے نفاذ کے لیے سخت اقدامات کو یقینی بنائے گی اور کسی بھی غیر قانونی اور غیر اخلاقی سرگرمی میں ملوث افسر یا اہلکار کو جوابدہ بنایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولیس افسران اور اہلکار قانون سے بالاتر نہیں ہیں اور ان میں سے کسی نے بھی اپنے اختیارات سے تجاوز کیا تو اسے سخت قانونی اور محکمانہ کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔