پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ آج مختصر فیصلہ جاری نہیں ہو سکے گا، الیکشن کمیشن ٹریبونلز کے نوٹیفکیشن کا آغاز آج سے شروع کردے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب میں الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل سے متعلق الیکشن کمیشن کی اپیل پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا۔
آئی کے 804‘ کی جعلی نمبر پلیٹ لگانے والا ٹک ٹاکر گرفتار
سماعت کے آغاز پر سلمان اکرم راجا کے وکیل حامد خان کی جانب سے چیف جسٹس پر اعتراض کیا گیا، انہوں نے کہا کہ مائی لارڈ ہم نے ایک درخواست دینی ہے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سنئیر وکیل ہیں اور ہمارے لیے قابل احترام ہے پہلے آڈر پڑھنے دیں۔
سلمان اکرم راجہ نے چیف جسٹس پر اعتراض کر دیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے خود کو علیحدہ کرنا ہے تو کر لیں، ابھی اٹارنی جنرل گزشتہ سماعت کا حکمنامہ پڑھیں۔
اس دوران حامد خان نے کہا کہ ہمیں آپ کے کیس سننے پر اعتراض ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ براہِ مہربانی اپنی نشست پر بیٹھے رہیں، آپ کو بعد میں سنیں گے، حامد خان کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
الیکشن کمیشن کے تحریری جواب کے مطابق ہائیکورٹ کی مشاورت سے مسئلہ حل ہوگیا،جسٹس عقیل عباسی
الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے بتایا کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے 4 ٹربیونلز قائم رکھے باقی 4 الیکشن کمیشن مقرر کرے گا، جسٹس عقیل عباسی نے استفسار کیا اس کا مطلب کہ الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ میں معاملات طے پاگئے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی بالکل کیونکہ قانون بدل گیا تھا اس لیے اب نئے 4 ٹربیونلز الیکشن کمیشن مقرر کرے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کی مدت 5 سال ہے جو بڑھ نہیں سکتی، اسٹے آرڈر والے کیسز بھی سپریم کورٹ میں آتے ہیں، جو معاملات عدالت کے نہیں ہیں، انہیں آپس میں حل کریں، ایک درخواست کر کر کے تھک گیا ہوں لیکن کسی نے زحمت نہیں کی، آئین کو دیکھیں آئین کیا کہتا ہے، آئین کی کتاب ہے لیکن آئین کو کوئی پڑھنا گوارا نہیں کرتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کوئی معمولی انسان تو نہیں، الیکشن کمیشن اور ہائیکورٹس دونوں اداروں کے لیے عزت ہے، ٹریبونل میں ججز کی تعیناتی پر پسند نہ پسند کی بات اب ختم ہونی چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ٹریبونل کی تعداد کا انحصار کیسز پر ہے، کیسز کو دیکھتے ہوئے ججز کی تعداد پر فیصلہ کریں، اگر ججز کی تعداد کیسز کو دیکھتے ہوئے کم ہوئی تو غیر منصفانہ ہوگا، مجھے نہیں معلوم بلوچستان یا پنجاب میں کتنے کیسز التوا ہیں۔