پاکستان تحریک انصاف کے جلسے کا این او سی منسوخ ہونے پر توہین عدالت کی سماعت کےدوران چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے استفسار کیا کہ آخری رات ہی این او سی معطل کرنے کا کیوں بتاتے ہیں؟، جبکہ کیس 10 ستمبر تک ملتوی کردیا ہے۔
پاک بحریہ کے کموڈور محمد خالد کی ترقی، ریئر ایڈمرل کے عہدے پر فائز
توہین عدالت کیس کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کی جبکہ سماعت کے دوران پی ٹی آئی کی نمائندگی شعیب شاہین نے کی، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد انتظامیہ پہلے بھی ایسا کر چکی ہے، اسی عدالت کے بنیچ نمبر 3 نے 22 اگست کو جلسہ کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
اس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے استفسار کیا کہ پاکستان اس وقت حالت جنگ میں ہے، لیکن اسلام آباد میں ایسا کیا ہوتا کہ ہر مرتبہ رات کو این او سی کینسل ہو جاتی ہے، میرا راستہ محدود ہے اپنے گھر جاتا ہوں یہ بتائیں اسلام آباد کو ہر جگہ کنٹینرز لگا کر بند کیوں کیا ہوا ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بتایا کہ ہلے بنگلہ دیش کی ٹیم تھی لیکن ہم مینج کر رہے تھے پھر مذہبی جماعت نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کر دیا، ہم نے مشاورت سے 8 ستمبر کو جلسے کی تاریخ دی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے اگر 8 کو کسی اور جماعت نے آنا ہے تو ابھی بتا دیں، جبکہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے شعیب شاہین سے استفسار کیا کیا آپ کو کوئی انٹیلیجنس رپورٹ بھی دیکھاتے ہیں، اس پر شعیب شاہین نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں کبھی انہوں نے کوئی رپورٹ نہیں دیکھائی، ہم نے جلسے ملتوی کر دیا پھر بھی پولیس نے وہاں آپریشن کر کے لوگوں کو گرفتار کیا، رات کے اندھیرے پنجاب پولیس بھی آ گئی، جلسہ کرانے کے لیے سکیورٹی نہیں مگر گرفتاریوں کے لیے سب کچھ ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید ریمارکس دیے ہم اس وقت حالت جنگ میں ہیں، بلوچستان میں جو ہو رہا ہے سب کے سامنے ہے، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے استفسار میں چیف جسٹس اسلام آباد نے کہا آخری رات ہی این او سی معطل کرنے کا کیوں بتاتے ہیں؟
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریماکرس دیے کہ یہ لوگ ایک پارٹی کے سپورٹر ہیں لیکن اس سے پہلے انسان اور پاکستان کے شہری ہیں، انتظامیہ آخری وقت پر جا کر جلسے کا این او سی کیوں معطل کرتی ہے؟ لوگ دور دراز علاقوں سے چل چکے ہوتے ہیں بعد میں پتہ چلتا ہے جلسہ معطل ہو گیا، آپ پہلے بتا دیا کریں کہ سیکیورٹی خدشات ہیں اجازت نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے مزید ریمارکس دیے یہ پہلے بتائیں جو بھی بیس پچیس ہزار لوگ آنے ہوتے ہیں اُن کی جان کو خطرہ ہے، وہ کوئی بےحس لوگ تو نہیں کہ انہوں نے پھر بھی اپنے لوگوں کو خطرے میں ڈالنا ہے، میں نے پریس میں دیکھا کہ صبح صبح اڈیالہ جیل جا کر ملاقات کی گئی۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کو جلسے کی اگلی اجازت بھی دیدی ہے، چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد سے استفسار کیا پورا اسلام آباد بند ہے کنٹینرز ہی کنٹینرز ہیں، وجہ کیا ہے؟ صرف ایک مارگلہ روڈ کھلا ہے اور وہاں بھی لمبی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس میں کہا کہ گاڑیوں کی آدھے پونے گھنٹے کی لمبی لائن ہوتی ہے، محرم ہو گیا، ختم نبوت والے آ گئے، اب آگے کیا ہونا ہے وہ بھی بتا دیں، کیا اچھا لگے گا کہ میں کمشنر کو بلا کر شوکاز نوٹس جاری کروں۔
ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے 8 ستمبر کو جلسے کی یقین دہانی کراتےہوئے کہا کہ پچھلی بار لفظ انشاء اللہ کہا تھا تو انہوں نے اعتراض کیا تھا، اس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے 8 کو جلسہ ہے تو ہم یہ درخواست نمٹا نہیں رہے، ہم اس درخواست کو دس ستمبر تک ملتوی کرتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کردی ہے۔
واضح رہے اسلام آباد کی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو وفاقی دارالحکومت میں جلسے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا تاہم پی ٹی آئی نے فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے کل 4 بجے ترنول چوک پشاور روڈ پر جلسے کا اعلان کیا۔
تشکر نیوز کے مطابق چیف کمشنر اسلام آباد کی جانب سے پی ٹی آئی کو جلسے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، جس کا باضابطہ نوٹی فکیشن بھی جاری کیا گیا تھا۔
نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ڈسٹرکٹ انٹیلیجنس کمیٹی کا اجلاس چیف کمشنر کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں آئی جی اسلام آباد، ڈی سی اسلام آباد نے شرکت کی۔
نوٹی فکیشن کے مطابق جلسے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا۔
ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اسلام آباد ترنول کے مقام پر تحریک انصاف کے جلسے کا نوٹیفیکیشن منسوخ کرنے کے بعد اسلام آباد پولیس جلسے کے مقام پر پہنچی۔
بعدازاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسلام آباد میں ہونے والا جلسہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے اسلام آباد میں پارٹی کے سینئر رہنماوں عمر ایوب، علی محمد خان، اسد قیصر، رؤف حسن اور دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس پیش رفت کا اعلان کیا۔
بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ ہم نے آج اپنی سیاسی کمیٹی کا اجلاس بلایا، آج ہمارا ون پوائنٹ ایجنڈہ تھا کہ جلسہ اسلام آباد میں منعقد ہونے جارہا تھا، یہ جلسہ آئین کے تحفظ کے لیے تھا ، ہم نے آج فیصلہ کیا ہے جلسہ منسوخ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب جلسہ منسوخی پر بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) و سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ اگر گزشتہ روز جلسہ کرتے تو دوبارہ 9 مئی کے گلے پڑنے کا خدشہ تھا۔
اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران عمران خان سے سوال کیا گیا تھا کہ خیریت ہے آپ پسینے سے شرابور ہیں اور آپ کی ساری شرٹ پسینے سے بھیگی ہوئی ہے، مزید پوچھا گیا کہ گزشتہ روز تک اعظم سواتی کو آپ سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہو تا تھا لیکن کل اچانک 7 بجے ہی آپ نے ملاقات کے لیے بلا لیا؟
اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ یہ شرٹ موٹی اور گرم ہے، رنگ بھی ایسا ہے، اس لیے پسینہ آگیا ہے، مزید بتایا کہ اعظم سواتی نے معلومات دی کہ ختم نبوت حساس معاملہ ہے جس پر دینی جماعت اسلام آباد میں احتجاج کر رہی ہیں، ہمیں انتشار کا خدشہ تھا اسی لیے اسلام آباد میں اپنا جلسہ ملتوی کیا، اگر گزشتہ روز جلسہ کرتے تو دوبارہ 9 مئی کے گلے پڑنے کا خدشہ تھا۔