تحریر: سید وقار علی، پی آر او ٹو ایس ایس پی ڈسٹرکٹ سینٹرل
پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ایک وقت تھا جب بیرونی سازشوں نے ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنے اور دہشتگرد ملک قرار دینے کی کوشش کی، لیکن پاکستان کی مستحکم کوششوں اور سفارتکاری سے یہ تاثر زائل ہوا۔ دنیا نے دیکھا کہ پاکستان نے معاشی چیلنجز کے باوجود دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری رکھی۔
امن و امان کے قیام میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشتگردوں کے خلاف دلیرانہ کارروائیاں کیں۔ پولیس نے اس جنگ میں صفِ اول کا کردار ادا کیا اور اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ملک میں امن و امان کے قیام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ دہشتگردی کی لہر کے دوران، کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کی لہر نے عوام کو خوفزدہ کردیا تھا۔ عوام گھروں میں محصور ہوگئی اور لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔
لیاقت آباد پولیس کی کارروائی، لڑائی میں فائرنگ کرنے والے دو ملزمان گرفتار
لیکن پولیس نے بے خوف ہوکر دہشتگردوں کا مقابلہ کیا اور بالآخر انہیں ان کے انجام تک پہنچایا۔ اس جنگ میں ہمارے جانبازوں کی لازوال قربانیاں روشن ستاروں کی مانند ہیں۔ یہ جنگ چونکہ شہروں میں لڑی گئی، اس لیے پولیس صفِ اول کے دستے میں شامل تھی اور دشمن کا پہلا ہدف پولیس ہی تھی۔
دہشتگردی کی لہر تھمنے کے بعد بھی پولیس نے انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیا۔ کتنے ہی بہادر پولیس افسران اور جوانوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ ملک و قوم کی خاطر ہمارے افسران و جوان آج بھی ان بزدلوں کو للکارتے رہتے ہیں۔
امن و امان کے قیام اور شہری زندگی کو معمول پر رکھنے کے لیے پولیس کا کردار کلیدی ہے۔ پولیس نے عوام کے جان و مال کے تحفظ اور قانون کے نفاذ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ قانون شکن افراد اور جرائم پیشہ افراد کے ساتھ پولیس کی روزمرہ کی لڑائی جاری رہتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ عوام نے پولیس کے شہداء کو فراموش کر دیا ہے۔ 4 اگست کو پولیس شہداء ڈے پر عوام کی جانب سے کوئی خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔ شہداء پولیس کیمپ پر عوام کی جانب سے رُک کر چراغاں کرنا تو دور کی بات، کوئی ان کیمپ کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔ ان شہیدوں کے یتیم بچے اور بیوہ عوام سے عقیدت کے متقاضی ہیں۔
یہ شہیدوں کے لہو کے فروزاں چراغ ہیں جو آج بھی زنداں کے ہر روزن میں روشنی بکھیر رہے ہیں۔