سیاسی پارٹیوں کے مفادات

تحریر: سعید آرائیں

پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہم حکومت کو گھر بھیجنا نہیں چاہتے حالانکہ ہمارے کچھ تحفظات ہیں مگر ہم کمزور ہیں نہ ہمیں کمزور سمجھا جائے۔ الیکشن سے پہلے ہمارا (ن) لیگ سے معاہدہ ہوا تھا مگر حکومت نے ہم سے بجٹ اور پی ایس ڈی پی پر کوئی مشاورت نہیں کی۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کا کارڈ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے اور وہ اپنے سیاسی مفاد کو ہی ترجیح دے گی۔

انتخابات کے نتائج میں کوئی پارٹی اکثریت حاصل نہ کر سکی تھی اور یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ پی ٹی آئی تنہا اپنی حکومت وفاق میں بنا سکے اور وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے سے انکارکر چکی تھی اور تینوں پارٹیوں نے اپنے اپنے اکثریتی صوبوں پنجاب، سندھ اور کے پی میں اپنی حکومتیں بنا لی تھیں جب  کہ بلوچستان کا حال وفاق جیسا تھا جہاں پی ٹی آئی نہیں تھی اور پی پی، (ن) لیگ اور جے یو آئی کے پاس زیادہ نشستیں تھیں مگر (ن) لیگ اور پی پی نے اپنے پرانے ساتھی مولانا فضل الرحمن کو نظر انداز کر کے وفاق کے بعد بلوچستان میں حکومت بنا لی تھی حالانکہ مولانا ایک لمبے عرصے سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ چل رہے تھے اور دونوں بڑی پارٹیاں وفاق اور بلوچستان میں مل گئی تھیں۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے چینی وزیر لیوجیان چاؤ کی ملاقات

(ن) لیگ کا پی پی سے 17 نکات پر معاہدہ ہوا تھا اور جس کے تحت وزارت عظمیٰ (ن) لیگ اور صدارت پیپلز پارٹی کو ملنا طے تھی اور باقی چار آئینی عہدے بھی پی پی کو ملنے تھے اور ملے مگر وفاقی وزارتیں لینے سے پی پی نے انکار کیا تھا حالانکہ 2008 کے الیکشن اور پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے پر 2022 میں دونوں پارٹیوں کے رہنما وزارتیں لے چکے تھے مگر 2008 میں دونوں کا اتحاد ختم ہو گیا تھا جس کا ذمے دار مسلم لیگ (ن) ججز بحالی نہ ہونے پر پیپلز پارٹی کو قرار دیتی تھی مگر پی ڈی ایم حکومت میں دونوں پارٹیوں نے مل کر سولہ ماہ کی مقررہ مدد پوری کی تھی مگر انتخابی مہم شروع ہوتے ہی پی پی چیئرمین بلاول زرداری نے اپنا ہدف مسلم لیگ (ن) کو بنا کر اس کے خلاف بھرپور مہم چلائی (ن) لیگ پر الزامات لگائے تھے مگر جنوبی پنجاب ہی میں پی پی کچھ کامیابی حاصل کر سکی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کا سادہ اکثریت حاصل کرنے کا خواب پورا نہ ہو سکا تھا جس پر میاں نواز شریف نے وزیر اعظم نہ بننے کا فیصلہ کیا اور شہباز شریف کا دوبارہ وزیر اعظم کا خواب پورا ہو گیا مگر اقتدار کے لیے یہ نہیں سوچا کہ پیپلز پارٹی نے ان سے جو شرائط طے کرائی ہیں وہ ان کے گلے پڑ جائیں گی۔ پی پی کی قیادت نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ ایسے آئینی عہدے لینے تھے جو مکمل محفوظ تھے جہاں سے 5 سال تک پی پی رہنماؤں کو ہٹانا ممکن نہ تھا اور وفاق میں وزارتوں کو کسی وجہ سے پی پی نے ترجیح نہیں دی تھی مگر تین ماہ گزرنے کے بعد پی پی رہنما محسوس کر رہے ہیں کہ انھیں بھی وفاقی وزارتیں لینی چاہئیں ایسا ہونے پر بلاول زرداری کو دوبارہ وزیر خارجہ بننے کا موقعہ مل سکتا ہے۔

میاں شہباز شریف دوبارہ وزیر اعظم تو بن گئے مگر وہ پی ڈی ایم دور جیسے مضبوط وزیر اعظم نہیں ہیں۔ وزارت داخلہ و خزانہ جیسے محکموں کا وزیر کوئی (ن) لیگی نہیں ہے۔ پی پی کے مطالبے پر انھیں اپنے بعض وزرا کی وزارت تبدیل کرنی پڑ سکتی ہے اور بعض دیگر وزارتیں بھی پی پی کو دینا پڑ سکتی ہیں۔

صدر مملکت، پنجاب و کے پی کی گورنری، چیئرمین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کے عہدے آئینی اور مضبوط ہیں اگر پی پی کا (ن) لیگ سے اتحاد ختم اور پی ٹی آئی سے اتحاد ہو بھی جائے تو پانچوں آئینی عہدے پی پی کے پاس رہیں گے اور وزارت عظمیٰ اور سندھ و بلوچستان کی گورنری اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کا اہم عہدہ مسلم لیگ (ن) سے واپس لیا جا سکتا ہے اور اس کے پاس صرف پنجاب کی حکومت رہ جائے گی جہاں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی مل کر تبدیلی لانے کی کوشش ضرور کر سکتی ہیں.

مگر پنجاب میں ن لیگی قیادت اپنے ارکان اسمبلی سے زیادہ بیورو کریسی کو اہمیت دیتے ہیں اور حکومت میں چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو ساتھ رکھنا اور اپنے ارکان سے دور رہنا اور ان سے کم ملنا اس پالیسی کا واضح ثبوت ہے۔ پہلے بھی ن لیگ کی پنجاب حکومت میں یہی پالیسی تھی۔ ن لیگ کی قیادت وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر دو دو ماہ ارکان اسمبلی کو ملاقات کا وقت نہیں دیتی تھی اور بیورو کریسی پر زیادہ انحصار کرتی تھی۔ یہ بات 1989 میں وزارت اطلاعات پنجاب کے دو بڑے عہدیداروں ڈاکٹر صفدر محمود اور حسین حقانی نے خود راقم الحروف کو بتائی تھی۔

پی ڈی ایم دور میں اتحادی حکومت میں شامل ن لیگ زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوئی۔ دوبارہ بننے والی حکومت میں پی پی منقسم صورت حال میں وزارت عظمیٰ نہیں چاہتی تھی کیونکہ یہی پیپلز پارٹی کے وسیع مفاد میں تھا اور اس نے مرضی کے آئینی عہدے حاصل کر لیے۔مسلم لیگ (ن) کو صرف پنجاب سے دلچسپی اور سیاسی مفاد تھا جو اس نے حاصل کر لیا اور وزارت عظمیٰ اسے دے دی گئی ۔ پیپلز پارٹی اپنے مفادات کے حصول میں کامیاب رہی اور نامعقول بجٹ سے (ن) لیگ کے مفادات پورے ہوتے نظر نہیں آرہے۔

 

 

53 / 100

One thought on “سیاسی پارٹیوں کے مفادات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Don`t copy text!