تشکر نیوز: آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن (اے پی ایم ڈی اے) کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے کہا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران 28 ہزار استعمال شدہ کاریں درآمد کی گئیں۔
تشکر نیوز کی رپورٹ کے مطابق مقامی کار ساز کمپنیاں قیمتوں میں کمی، رجسٹریشن کی مد میں رعایت اور آٹو فنانسنگ کے ذریعے خریداروں کو راغب کرنے کی جدوجہد کررہی تھی لیکن ایسے میں درآمد شدہ گاڑیوں کی تعداد میں زبردست اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
اے پی ایم ڈی اے کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے دعویٰ کیا ہے کہ مالی سال 24 میں جولائی سے مئی کے دوران 28 ہزار استعمال شدہ کاریں درآمد کی گئیں، حالانکہ گزشتہ مالی سال 23 میں پورے سال کے دوران یہ تعداد 14 ہزار سے 15 ہزار تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ رواں مالی سال کے اختتام تک کل درآمدات 35 ہزار یونٹس تک پہنچ جائیں گے، جب کہ حکومت رواں مالی سال میں کسٹم ڈیوٹی اور دیگر ٹیکسز کی مد میں استعمال شدہ کاروں کی مجموعی درآمد سے تقریباً 40 کروڑ ڈالر حاصل کرے گی۔
داسو حملے میں جاں بحق چینی شہریوں کے لواحقین کیلیے 71 کروڑ سے زائد معاوضے کا اعلان
انہوں نے استعمال شدہ کاروں کی بڑھتی ہوئی درآمد کی وجہ سیاسی اور معاشی استحکام کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ استعمال شدہ کاروں کی کل درآمدات میں 1000 اور 600 سی سی کا حصہ 80 فیصد ہے۔
ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کے اعداد و شمار کے مطابق مکمل طور پر تعمیر شدہ (سی بی یو) یونٹس (موٹر کاروں) کی درآمد جولائی تا اپریل مالی سال 24 میں 256 فیصد بڑھ کر 20 کروڑ 70 لاکھ ڈالر ہوگئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 5 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھی۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ بالا پی بی ایس ڈیٹا میں نئی کاروں کی درآمدات بھی شامل ہیں۔
ایچ ایم شہزاد کا کہنا تھا کہ رہائش، تحائف اور سامان کی منتقلی کی اسکیموں کے تحت استعمال شدہ کاروں کی درآمد کی پالیسی بڑھا کر گاڑیوں کے استعمال کی عمر 3 سال سے بڑھا کر 7 سال کرنی چاہیے، جب کہ ہائبرڈ، الیکٹرک اور ایس یو وی کاروں کے استعمال کی مدت بھی 5 سال سے 7 سال تک کرنی چاہیے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان تمام گاڑیوں کی ڈیوٹی زرمبادلہ میں ادا کی جاتی ہے، 80 فیصد استعمال شدہ کاروں (660cc-1000cc) کی درآمد سے مہنگے درآمدی پیٹرول کا بوجھ بھی کم ہوتا ہے، کیونکہ کم انجن والی گاڑیاں 22-24 کلومیٹر فی لیٹر چلتی ہیں۔
اے پی ایم ڈی اے کے سربراہ نے کہا کہ استعمال شدہ کاروں کی درآمد سے مقامی اسمبلرز کو کافی مقابلہ ملے گا، جس سے وہ قیمتوں میں مزید کمی کریں گے اور ”آن منی یا پریمیم“ کی شکل میں بلیک مارکیٹنگ کی بھی روکیں گے۔
مقامی طور پر اسمبل شدہ کاروں کی فروخت مالی سال 24 کے دوران 29 فیصد گر کر 62 ہزار 962 یونٹس رہ گئی جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 88 ہزار 260 یونٹس تھی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جون 2022 کے اختتام پر آٹو فنانسنگ میں 368 ارب روپے سے 132 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔
ڈیلرز کا کہنا تھا کہ 22 فیصد کی بلند شرح سود کے درمیان مقامی طور پر اسمبل شدہ نئی گاڑیوں کے بجائے استعمال شدہ کاروں کے لیے فنانسنگ کا مطالبہ زیادہ کیا جارہا ہے۔