بوقت تحریر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی وطن عزیز کے دورے پر ہیں۔ ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہے جب دنیا نہایت مشکل دور سے گزر رہی ہے، بالخصوص ہمارے خطے کے ممالک کےلیے یہ دور نہایت گراں ہے۔ تقریباً ممالک ہی حالت جنگ میں ہیں یا جنگ کے اثرات کی زد میں ہیں۔
ایران تو براہ راست جنگ میں کود چکا ہے اور اسرائیل اور ایران میزائل میزائل کھیل رہے ہیں۔ حقائق جو بھی ہوں یا ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے اور میزائل داغنے کے پیچھے جو بھی محرکات ہوں، بظاہر ایران بھی جنگ میں ہے جس کے اثرات قریبی ممالک پر پڑنا بدیہی ہے۔ ایرانی صدر نے پاکستان کا دورہ کیا جو دونوں ممالک کو قریب لانے کا بڑا سبب بنے گا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدات ہونے سے معاشی بہتری کی طرف بھی قدم اٹھایا جاسکے گا۔
ہمارے خطے کی انتہائی بدقسمتی ہے کہ یہاں دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ موجود ہے، اگر یوں کہا جائے کہ چین، بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش میں دنیا کی نصف آبادی موجود ہے تو غلط نہ ہوگا، مگر بدقسمتی سے ان ممالک کی آپس میں بنتی نہیں ہے، تمام ممالک ایک دوسرے کے جانی دشمن بنے ہوئے ہیں۔ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں تو امن قائم رہتا ہے اور معیشت بہتر ہوتی ہے اور اگر ہمسایوں کے ساتھ تعلقات میں سردمہری ہو یا ہماری طرح دشمنیاں ہوں تو پھر ذلت کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ بدقسمتی سے مملکت خداداد پاکستان کا بہت سے ایسے ہمسایوں سے واسطہ ہے جو یا تو خود شر انگیز ہیں یا دوسروں کی شرانگیزی سے متاثر ہیں اور اپنی ان عادات کی بدولت نہ تو وہ خود سکون سے رہتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو امن سے رہنے دیتے ہیں۔
ہمسایہ ممالک کے ساتھ اگر تعلقات بہتر نہ ہوں تو کوئی بھی ملک خوشحال نہیں ہوسکتا۔ ہمسایوں کے ساتھ بہتر تعلقات کے بغیر معاشی ترقی بھی ممکن نہیں، کیونکہ جب ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں ہوں گے تو ہر وقت ان کے فسادات سے بچنے کی فکر لاحق رہے گی یا انہیں نقصان پہنچانے کی سعی کرتے رہیں گے اور ہمسایوں کو نقصان پہنچانا یا ان کی شرانگیزیوں سے بچنا اتنا آسان نہیں ہوتا، اس کےلیے فوج رکھنی پڑتی ہے اور مؤثر حکمت عملی اپنانی ہوتی ہے۔
فوج پر ملکی بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ خرچ ہوتا ہے جس سے ملک اور غریب عوام محروم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کے ممالک کو بہت زیادہ اسلحہ رکھنا پڑتا ہے اور یہ ممالک عموماً خود اسلحہ سازی کے قابل نہیں ہوتے، لہٰذا انہیں دیگر ترقی یافتہ ممالک سے اسلحہ خریدنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ملکی خزانے پر بہت زیادہ بوجھ پڑتا ہے اور اس قسم کی دشمنیاں رکھنے والے ممالک کا خزانہ اتنا اسلحہ خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا لہٰذا ایسے ممالک کو ترقی یافتہ ممالک سے قرض لینے پڑتے ہیں، نتیجتاً یہ ممالک غربت اور قرضوں میں جکڑ جاتے ہیں۔ یہ ممالک صنعتیں قائم کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ملک کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ ممالک معاشی لحاظ سے بھی نہایت کمزور ہوتے ہیں اور امداد کےلیے ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہی دیکھتے رہتے ہیں اور ترقی یافتہ ممالک امداد دے کر انھیں اپنے مفادات کےلیے استعمال کرتے ہیں۔
جن ممالک کے ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہوتے ہیں انہیں نہ تو اپنے دفاع کی زیادہ فکر ہوتی ہے اور نہ ہی بہت زیادہ فوج اور اسلحہ جمع کرنے کی پریشانی۔ ایسے ممالک میں امن و خوشحالی رہتی ہے اور یہ ممالک ترقی کی راہوں پر گامزن رہتے ہیں کیونکہ نہ تو وہ لاکھوں کی تعداد میں فوج رکھتے ہیں اور نہ ہی بہت زیادہ اسلحہ جمع کرتے ہیں۔ وہ سارا بجٹ اپنے ملک اور عوام پر خرچ کرتے ہیں، ملک میں صنعتیں لگاتے ہیں، قدرتی وسائل اور معدنیات وغیرہ سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں اور ترقی کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی برآمدات بہت زیادہ ہوتی ہیں جن کے مقابلے میں درآمدات بہت کم ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ان کی معیشت نہایت مضبوط ہوتی ہے۔
تقریباً 80 سال قبل مغربی ممالک بھی ہمارے ممالک کی طرح ایک دوسرے کے سخت دشمن تھے، وہ ایک دوسرے کے خلاف نفرت پھیلانے میں مشغول رہتے تھے، ہر وقت ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے درپے رہتے تھے، جس کے نتیجے میں انہوں نے دو بڑی جنگیں لڑیں اور بہت زیادہ نقصان اٹھایا۔ جب انہوں نے ان جنگوں کے اثرات کا جائزہ لیا تو انہیں سوائے نقصان کے کچھ نظر نہ آیا۔ بہت سے ممالک کی معیشت تباہ ہوئی، لاکھوں لوگ ہلاک ہوگئے مگر حاصل کچھ نہ ہوا۔ لہٰذا انہوں نے آئندہ جنگوں سے توبہ کرکے آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضا پیدا کی، بہت سے معاہدات کیے اور بہت سے اتحاد بنائے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آیا اور سب سے بڑھ کر انہوں نے اپنے لیے ایک مشترکہ فوج نیٹو کے نام سے تشکیل دی جو تمام رکن ممالک کے جان و مال کے تحفظ کی ذمے دار سمجھی گئی، جس کی وجہ سے ان ممالک کو اپنی علیحدہ فوج رکھنے کی ضرورت نہ رہی اور وہ خود آپس میں اچھے ہمسایوں کی طرح رہنے لگے۔ اسی اچھی ہمسائیگی کی بدولت انہوں نے اپنے ممالک کو محفوظ کرلیا اور اپنے خزانے کا رخ معیشت کی طرف موڑ دیا اور خوشحال زندگی بسر کرنے لگے۔
لیکن ہمارے خطے کے ممالک ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے اور ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف رہتے ہیں، نہ خود سکون سے رہتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو چین کی زندگی بسر کرنے دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں نہ تو خود ترقی کرتے ہیں اور نہ ہی دوسروں کو کرنے دیتے ہیں۔ خطے میں تمام ممالک کے عوام نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں مگر حکمرانوں کو اس کی پروا نہیں، وہ مغرب کے زیر اثر ہی رہنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ان ممالک بالخصوص پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، ایران اور چین کو بھی چاہیے کہ وہ مغربی ممالک کی تاریخ سے فائدہ اٹھائیں جنہوں نے جنگیں لڑیں مگر ان کے ہاتھ کچھ نہ آیا، بالآخر انہیں ہمسایہ ممالک کے ساتھ اتحاد کی طرف آنا پڑا۔ لہٰذا ہم ان کی تاریخ سے سبق حاصل کرتے ہوئے جنگوں کا نقصان اٹھائے بغیر ہی آپس میں اتحاد قائم کرلیں اور اچھے ہمسایوں کی طرح زندگی بسر کریں۔ آپس میں سیاسی اور معاشی معاہدات کریں، ایک مشترکہ فوج تشکیل دیں تاکہ ہم بھی وہ ملکی بجٹ جو ہم اپنے دفاع پر خرچ کرتے ہیں اپنے ممالک کی معیشت پر خرچ کرنے کے قابل ہوجائیں اور اپنے ممالک کے وسائل سے استفادہ کرکے عوام کو ترقی و خوشحالی کی زندگی بسر کرنے کے قابل بناسکیں۔ یوں ہمارے ممالک پرامن ہوجائیں گے، ان کا دفاع مضبوط ہوجائے گا اور کسی تیسری طاقت کو ان کی طرف میلی نگاہ سے دیکھنے کی بھی جرأت نہیں ہوگی۔