سندھ ہائیکورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔لاپتہ شخص کے والد نے عدالت میں بیان دیا کہ بیٹے عطا اللہ کو دیکھے ہوئے سالوں گزر گئے، میرے بیٹے کو عدالت میں پیش کیا جائے اور جرم ثابت ہوتو بے شک پھانسی پر لٹکا دو۔ 9 سال سے آئین کی خلاف ورزی کی جارہی ، ہمارا جرم کیا ہے؟۔لاپتہ شخص کے والد اعظم خان نے کہا کہ عدالتوں کے حکم نہیں مانے جارہے، اپنے فیصلوں پر تو عملدرآمد کرائیں، عدلیہ بھی شہریوں کے ٹیکس سے تنخواہ لیتی ہے، اپنا کردار ادا کرے۔جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے ریمارکس دئیے کہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں بھرپور کوشش کریں گے، ہم آپ کی پریشانی جانتے ہیں آپ بہت پریشان ہیں۔لاپتہ شخص کے والد نے کہا کہ میرا بیٹا مر گیا ہے تو اس کی لاش تو کم سے کم دی جائے۔
عدالت نے پولیس اور متعلقہ اداروں سے رپورٹ طلب کرلی۔ فرید خان ،مسماۃ ریحانہ، مصطفیٰ حنیف، مسماۃ ثمینہ نسرین ، نور محمد و دیگر نے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواست دائر کی تھی۔جب کہ گذشتہ روز سندھ ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی، جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے کیس کی سماعت کی، دوران سماعت پولیس نے رپورٹ پیش کی لیکن عدالت نے پولیس کی رپورٹ کو مسترد کردیا، لاپتاافراد کی بازیابی میں پیش رفت نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پولیس کی رپورٹ روایتی ہے، پولیس لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کیوں کچھ نہیں کرتی؟۔اس موقع پر سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق 21 جے آئی ٹی اور60 ٹاسک فورس کے اجلاس ہو چکے ہیں‘، جس پر جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو نے وکیل سے استفسار کیا کہ ’سیکرٹری داخلہ کی رپورٹ کہاں ہے؟‘ اس کے جواب میں سرکاری وکیل نے بتایا کہ ’سیکرٹری داخلہ کی رپورٹ جمع کرادی گئی ہے‘۔ دوران سماعت لاپتہ افراد کے اہل خانہ نے عدالت کے سامنے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم ہاتھ جوڑکر التجا کرتے ہیں، یہ کیس بند کر دیں اور یہ تماشا بھی، ابھی تک کچھ بھی معلوم نہیں ہوسکا ہے بلکہ الٹا ہمیں دھکے کھلائے جا رہے ہیں، پولیس کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتی ہے ہمارے پاس نہیں ہیں، 9 سال ہوگئے لاپتا فرقان اور ندیم کو بازیاب نہیں کرایا جاسکا‘۔