مقبوضہ کشمیر میں مسلح افراد نے ایک زیر تعمیر سرنگ پر کام کرنے والوں کے کیمپ پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں کم از کم 7 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔
راولپنڈی اور سوہاوہ میں ریپ کے 4 مقدمات درج
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اتوار کو کیا گیا رواں سال ہونے والے بدترین حملوں میں سے ایک ہے جس میں شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
مقبوضہ خطے کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اس حملے کو بزدلانہ “ قرار دیا جبکہ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ واقعے میں ملوث عناصر کو ’سخت ترین‘ جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
حملہ آوروں نے جس عملے کو نشانہ بنایا وہ ہمالیائی خطے سے تعلق نہیں رکھتا تھا اور جن کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو شمالی لداخ کے علاقے سے ملانے والی ایک سرنگ کے کام میں مصروف عمل تھے۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والے 7 افراد میں ایک ڈاکٹر بھی شامل ہے جبکہ واقعے میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔
حال ہی ایک دہائی بعد ریاست میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی کے بعد بدھ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھانے والے عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ غیر مقامی مزدوروں پر حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
حملے کے فوراً بعد عمر عبداللہ نے دو افراد کے مارے جانے کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ خبردار کیا کہ واقعے میں کئی مقامی اور غیرمقامی مزدور زخمی ہوئے۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کم از کم 5لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں جن کے خلاف کشمیر کے بہادر عوام اور نوجوان 1989 سے اپنے حق خودارادیت اور آزادی کے لیے برسرپیکار ہیں اور اب تک بھارتی فوج اپنی بزدلانہ کارروائیوں میں ہزاروں نوجوانوں کو ماورائے عدالت قتل کر چکی ہے۔
بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے ایک بیان میں اس حملے کو بزدلانہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس گھناؤنے فعل میں ملوث افراد کو بخشا نہیں جائے گا اور انہیں ہماری سیکیورٹی فورسز کے سخت ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہ حملہ سونمرگ کے علاقے گگنگیر میں پیش آیا جہاں بھارت کے وزیر سڑک نیتن گڈکری نے کہا کہ معصوم مزدور ایک اہم انفراسٹرکچر پراجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔
بھارتی اخبارات کی رپورٹس کے مطابق مسلح افراد نے پہاڑیوں پر موجود جنگلات میں چھپ کر خودکار ہتھیاروں سے کیمپ پر فائرنگ کی۔
بھارت مسلسل کسی ثبوت کے بغیر پاکستان پر دہشت گردوں اور کشمیری مجاہدین کی حمایت اور انہیں مسلح کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے لیکن اسلام آباد نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے 2019 میں کشمیر کی محدود خودمختاری کو منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد ریاست بھر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں آئی تھیں اور ایک ماہ تک ہر قسم کا مواصلاتی رابطہ منقطع رہا تھا جبکہ اس دوران بھارتی فوج کی جانب سے ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ بھی جاری رہا تھا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ رواں سال جون میں پیش آیا تھا جب ضلع ریاسی میں زائرین کو لے جانے والی بس پر ایک مسلح شخص نے فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں 9 ہندو زائرین ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔